• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امتیاز احمد کے وداع ہونے،اس دنیا سے چلے جانے کا مجھے بہت دکھ ہوا، ان کے سفر آخرت کی خبر سن کر مجھے اپنے وجود کے ساتھ ساتھ سب کچھ خالی خالی محسوس ہوا تھا، ہر طرف سناٹا چھا گیا تھا، مجھے ایسا لگا تھا جیسے پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا تھا، پاکستان کے کرکٹ گرائونڈ اجڑ گئے تھے، ویران ہوگئے تھے، میں نہیں جانتا کہ کتنے لوگوں نے اس طرح محسوس کیا تھا، مگر میں نے اسی طرح محسوس کیا تھا، میں نہیں جانتا کہ میرے علاوہ اور کتنے لوگ ہیں جنہوں نے احترام اور عقیدتوں کی بے انتہا اونچائی سے ان کو دیکھا اور ان کو چاہا تھا، ان سے محبت کی تھی، وہ تھے تو اسی دنیا کے مگر سب سے الگ الگ لگتے تھے، یہ بہت پرانی اور بوڑھی کہاوت ہے کہ یہ دنیا فانی ہے، دو دن کا میلہ ہے، خواب ہے، جو بھی اس دنیا میں آتا ہے، اسے ایک روز یہ دنیا چھوڑ کر جانا پڑتا ہے، جب کوئی شخص آپ کی زندگی میں ہیرو کی جگہ لے لیتا ہے تب تعزیت کے روایتی جملے بے معنی لگتے ہیں۔
ہیرو ہماری زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں، وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں، مگر جب ہمارے ہیرو کا پرتو اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تب ہمارا اپنا وجود ابر آلود ہوجاتا ہے، کچھ سجھائی نہیں دیتا، ایسے میں ہم اپنے ہیرو کو اپنے وجود میں اور قریب جاکر دیکھتے ہیں، ٹٹولتے ہیں، ان کی عظمت تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
جن لوگوں نے امتیاز احمد کو کھیلتے ہوئے نہیں دیکھا تھا وہ ان کے بارے میں اس سے زیادہ کیا لکھ سکتے ہیں کہ امتیاز احمد پاکستان کی پہلی ٹیسٹ ٹیم میں شامل تھے۔ وہ پاکستان ٹیم کے کپتان بھی بنے تھے، چیف سلیکٹر بھی رہ چکے تھے، اس سے زیادہ وہ اور کیا لکھ سکتے ہیں؟ سرڈان بریڈمین دنیا کے عظیم ترین بیٹس مین تھے، اس حقیقت کی تصدیق کرنے کیلئے اسی نوے برس وقت میں پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے، وہ باشعور معاشرے کے فرد تھے، ان کی زندگی کے ایک ایک لمحے کو قلمبند کیا گیا ہے، ان کی ایک ایک کھیلی گئی اننگ کا تجزیہ کیا گیا ہے، آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے گئے بدنام زمانہ ٹیسٹ سیریز جو کہ باڈی لائن بالنگ کے حوالے سے جانی جاتی ہے اس پر کتابوں کے علاوہ بیشمار مضامین اور تجزیئے محفوظ کرلئے گئے ہیں، انگلینڈ کے فاسٹ بالر لاروڈ نے آسٹریلیا کے سات کھلاڑیوں کو اپنی تیز بالنگ سے زخمی کرکے اسپتال پہنچا دیا تھا، بریڈمین نے کس طرح لاروڈ کی تیز ترین بالنگ پر بیٹنگ کی تھی اور لاروڈ کی دھنائی کی تھی، ان لمحوں کو قلمبند کیا گیا تھا، بریڈ مین نے صرف باون ٹیسٹ میچوں میں انتیس سنچریاں بنائی تھیں مع پانچ ڈبل سنچریوں اور دو ٹرپل سنچریوں کے، یہ وہ زمانہ تھا جب سرپر پہننے کیلئے ہیلمٹ ایجاد نہیں ہوئے تھے، تھائی اور ویسٹ پیڈ نہیں بنے تھے، آرم گارڈ نہیں بنے تھے، ہینڈ گلوز بھی روئی وغیرہ سے بنتے تھے، بیٹس مین کو اپنی حفاظت کیلئے صرف ایبڈومن گارڈ اور لیگ گارڈ یعنی پیڈ ملتے تھے، اور مزے کی بات یہ کہ اس زمانے میں سفید رنگ کے لانگ بوٹ پہن کر بیٹنگ کرتے تھے تاکہ پیروں کی انگلیوں کی حفاظت ہوسکے اور اہم بات یہ کہ وکٹ یعنی پچ بھی اس اعلیٰ معیار کی نہیں ہوتی تھی جس معیار کی پچ آج کل کے بیٹس مین کو کھیلنے کیلئے ملتی ہے، بریڈمین نے باون ٹیسٹ میچوں میں انتیس سنچریاں بنائی تھیں، وہ اگر سچن ٹنڈولکر کی طرح دو سو ٹیسٹ میچز کھیلتے تو اعداد شمار کے لحاظ سے ایک سو بیس ٹیسٹ سنچریاں بنا چکے ہوتے، حالیہ دور کے بڑے بیٹس مین لارا، رچرڈس، گواسکر، سچن، آملہ، میانداد، یونس جب اپنے کیریئر کا باونواں ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے، تب وہ پندرہ یا سولہ سنچریاں بنا پائے تھے، یہ تمام باتیں اسپورٹس لائیٹرس نے بڑی وضاحت سے تحریر کردی ہیں، میں یہاں کسی لحاظ سے بریڈمین اور امتیاز احمد کا موازنہ کرنے کی غلطی نہیں کر رہا، میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ سرڈان بریڈمین کی زندگی کے ایک ایک لمحہ کو قلمبند کیا گیا ہے، ان پر ڈاکیو مینٹریز بنی ہیں…ان کے نام سے میوزیم بنے ہیں…بہرحال بریڈ مین باشعور معاشرے کے فرد تھے، وہ اپنے ہیروز کو پہچانتے تھے اور ان کی قدر کرنا جانتے تھے، جانتے ہیں۔
یاد ہے کسی کو ؟ ہے کسی کے پاس مکمل ریکارڈ جب ہندوستان کے بٹوارے کے فوراً بعد بریبون اسٹیڈیم ممبئی کا صد سالہ جشن منانے کیلئے ورلڈ الیون کو پرائم منسٹر جواہر لعل نہرو کرکٹ ٹیم کیخلاف کھیلنے کیلئے مدعو کیا گیا تھا، جواہر لعل نہرو نے امتیاز احمد اور فضل محمود کو اپنی ٹیم کی طرف سے کھیلنے کیلئے خاص طور پر مدعو کیا تھا، جواہر لعل نہرو ٹیم میں ہندوستان کے مہمان کھلاڑی مشتاق علی، ونومنکڈ، وجے مرچنٹ، وجے منجریکر، وجے ہزارے، دتو پھٹکر شامل تھے۔ ورلڈ الیون میں دنیا کے نامور کھلاڑی کیتھ ملر، ڈیرک انڈروڈ، اسٹیلیمر، واریل، ویکس، رے لنڈوال وغیرہ شامل تھے، دیگر نام میرے ذہن میں نہیں آرہے، تقریباً ستر برس پرانی بات ہے، ہم لمحوں کو قلمبند نہیں کرتے، محض یاد رکھتے ہیں،یہ بہت بڑا فرق ہے، ہم میں اور گوروں میں…اس یادگار میچ میں جواہر لعل نہرو ٹیم کو اننگ ڈفیٹ سے بچاتے ہوئے امتیاز احمد نے ایک دن میں تین سو رنز بنائے تھے، یعنی ٹرپل سنچری بنائی تھی، ہمارے پاس اس میچ کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔
بریبون اسٹیڈیم بمبئی میں دنیا کو حیران کردینے والی ٹرپل سنچری بنانے کے تقریباً دس برس بعد ویسٹ انڈیز میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستان کو اننگ ڈفیٹ سے بچانے کیلئے امتیاز احمد نے حنیف محمد کے ساتھ اوپن کرتے ہوئے دنیا کے تیز ترین بالر گلکرسٹ کو ہک، پل، اکسوائر کٹ، کور ڈرائیو مارتے ہوئے ویسٹ انڈیز کو حیران اور پریشان کردیا تھا، اکانوے کے اسکور پر ان کو ایل بی ڈیلیو دیکر آئوٹ قرار دیا گیا تھا، زمانہ تھا انیس سو اٹھاون 1958ء کا اس میچ میں حنیف محمد نے تاحال دنیائے کرکٹ کی لمبی ترین اننگ کھیلی تھی، حنیف محمد نے تقریباً سترہ گھنٹے بیٹنگ کرتے ہوئے تین سو سینتیس 337رنز بنائے تھے۔
جس طرح دوسری جنگ عظیم نے سرڈان بریڈمین کو پانچ برس کرکٹ سے محروم کردیا تھا، عین اسی طرح تقسیم ہند کے نتیجے میں ہونے والے ہولناک فسادات نے امتیاز احمد کو دوچار برسوں تک کرکٹ سے دور کردیا تھا…ورنہ وہ تقسیم ہند سے پہلے سولہ برس کی عمر میں رانجی ٹرافی میں پنجاب کی طرف سے کھیلتے تھے…امتیاز احمد میری روح کی گہرائیوں تک تب اتر گئے تھے جب انہوں نے ورلڈ الیون کیخلاف ممبئی میں تین سو رنز بنائے تھے اور آئوٹ نہیں ہوئے تھے، ڈان اخبار نے پہلے صفحہ پر امتیاز احمد کی تصویر گول دائرے میں شائع کی تھی اور لکھا تھا Imtiaz scores300 not out میں امتیاز احمد سے کبھی نہیں ملا تھا، اسٹیڈیم میں بیٹھ کر ان کو بیٹنگ کرتے ہوئے دیکھا تھا، امتیاز احمد کی جو تصویر میں نے بنائی تھی، وہ عین اسی طرح نکلے، پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے کھیلتے تھے، ادب سے رغبت رکھتے تھے، اپنے دور کے نامور ادیبوں کے دوست تھے، خاص طور پر شفیق الرحمن کے۔ پاکستان ایئرفورس میں بطور اسکوارڈن لیڈر کام کرتے تھے، شریف النفس تھے، لوگوں کا احترام کرنا جانتے تھے، کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی، کبھی کسی کو نہ ڈانٹا اور نہ کسی سے اونچی آواز میں بات کی، اپنے کھیل میں محو رہتے تھے، برسوں بعد امتیاز احمد کی جھلک مجھے یونس خان میں دکھائی دی ہے۔

.
تازہ ترین