• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ )
ہم آج سے چند سال پیچھے کی طرف چلتے ہیں۔ جب اس ملک میں ایوب خان کی حکومت تھی تو ملک میں پہلا مارشل لاء اور لاہور میں دوسرا مارشل لاء لگا تو ایوب خان کی حکومت نے کہا کہ 24گھنٹے کے اندر اندر گوشت کی دکانوں پر جالی لگ جائے۔ کلچہ اور نان فروشوں کی دکان پر چھوٹا ترازو لگ جائے تاکہ کلچہ، نان اور روٹی کا پیڑہ مقررہ وزن کا ہو۔ عزیز قارئین اس ملک کے لاکھوں لوگ جانتے ہیں کہ کس طرح ہر گوشت کی دکان پر جالی لگ گئی اور ترازو آگیا۔ اس زمانے میں گوالے شہر میں رہتے تھے، لوگوں کو خالص دودھ ملتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کے مقابلے میں اس وقت پورے ملک کے شہر بھی صاف ستھرے تھے، تانگہ بھی چلتا تھا اور ریڑھا بھی چلتا تھا، مچھر بھی کم تھے اور مچھر کے کاٹنے سے لوگ مرتے بھی شاذونادر تھے۔ پھر کسی نے 1975ء میں یہ مشورہ دیا کہ شہروں سے گوالوں کو شہر بدر کیا جائے تاکہ شہر صاف ستھرے رہیں، سارے گوالوں کو شہر بدر کر دیا گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے آج تمام بستیاں خود چل کر گوالا بستیوں تک پہنچ گئی ہیں، تو کیا اب گوالوں کو بارڈر پار بھیجا جائے؟
ہم اس پر پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہائوسنگ اسکیمیں بنانے والوں کو حکومت پابند کرے کہ ان اسکیموں کے اندر لازمی ڈیری فارم ہوں تاکہ ہر بستی والوں کو تازہ اور صاف ستھرا دودھ ملے۔ یقین کریں آنے والے چند برسوں میں یہ قوم ہڈیوں کی ایسی ایسی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے گی کہ جن کا علاج بھی ممکن نہ رہے گا، یہ پہلی قتل گاہ ہے۔
امریکہ میں پاکستانی ڈاکٹروں کی ایک تنظیم ’’اپنا‘‘ ہے جسے ایسوسی ایشن آف پاکستانی ڈاکٹرز ناتھ امریکہ کہتے ہیں۔ اس تنظیم کی ڈاکٹر عائشہ ظفر امریکہ میں اور پاکستان میں میڈیکل پروفیشن اور مریضوں کے لئے بہت سرگرم ہیں۔ ’’اپنا‘‘ میں بچوں کے شعبہ کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ نجیب آجکل پاکستان آئی ہوئی ہیں۔ (یاد رہے ڈاکٹر عائشہ ظفر اور ڈاکٹر عائشہ نجیب دو الگ الگ ڈاکٹرز ہیں)
ڈاکٹر عائشہ نجیب نے بتایا کہ پاکستان میں اس وقت جو دودھ بچوں کو پلایا جارہا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے اور آئرن والا دودھ بالکل صحیح نہیں۔ دودھ آئرن کی کمی کو کسی طور پر پورا نہیں کرتا۔ ڈبے کے دودھ کا کاروبار کرنے والے ارب پتی سیٹھ بضد ہیں کہ ڈبے کا دودھ بہترین ہے حالانکہ وہ اپنے گھروں میں ڈبے کا دودھ استعمال نہیں کرتے اب لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے کہ دودھ پیو اور آئرن کی کمی پورا کرو۔ عدالت عظمیٰ دودھ کے معاملے میں بہت حساس ہو چکی ہے اور اپنے ریمارکس بھی بڑے سخت دے چکی ہے۔ اس کے باوجود ملک میں ڈبے کے دودھ کا کاروبار اشتہار بازی کے ذریعے پھیلا جارہا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو ماں کادودھ دینا چاہئے۔ لیکن ہمارے ہاں ڈاکٹروں کی اکثریت اور بعض مائیں خود اپنے نومولود بچوں کو ڈبے کے دودھ پر لگا دیتی ہیں۔ کتنی حیران کن بات ہے کہ پنجاب میں ماں کے دودھ پلانے کے حوالے سے بڑی ٹھوس اور مربوط پالیسی موجود ہے مگر آج تک اس حوالے سے کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔ اس پر اگلے کالم میں بات کریں گے۔
اس ملک میں باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ عوام کوڈبے کا ناقص دودھ پلایا جارہا ہے یہ کیسا دودھ ہے کہ جو دکانوں پر موسم گرما میں پڑا رہتا ہے اور خراب نہیں ہوتا۔ سوچیں کہ اس کے اندر کس قدر ایسے کیمیکل اور اجزاء شامل کیے گئے جو اس برائے نام دودھ کو مہینوں خراب نہیں ہونے دیتے۔ ارے دوستو یہ ڈبے کا دودھ دودھ نہیں یہ ایک ایسا زہر ہے جس کے نتائج آج بیماریوں کے صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ اس پر ہم پھر تفصیلاً بات کریں گے۔
دوسری جانب گائے اور بھینسوں کو مضر صحت انجکشن لگائے جارہے ہیں تاکہ دودھ کی پیداوار زیادہ حاصل کی جائے۔ گزشتہ سال ستمبر میں اس مخصوص انجکشن کی رجسٹریشن منسوخ کی گئی تھی لیکن یہ انجکشن ابھی بھی لگائے جارہے ہیں جو انسانی جسم کے لئے مضر ہیں اور کوئی حکومتی ادارہ اس پر ایکشن نہیں لے رہا۔
صاف پانی کا مسئلہ ہے۔ اس وقت ملک میں کام کرنے والی اکثر کمپنیوں کا پانی آلودہ ہے اور دوسری طرف شہروں میں سیوریج اور پانی کے پائپ آپس میں مل چکے ہیں اور پھر صنعتوں کا گندا پانی بیراجوں میں ڈالا جا رہا ہے، آلودہ پانی دوسری قتل گاہ ہے۔ کبھی لاہور کا پانی میٹھا اور صاف ستھرا ہوتا تھا کہ لوگ اس کی مثال دیا کرتے تھے۔ ہم جب کسی زمانے میں راوی دریا (اب راوی گندا نالہ) میں کشتی چلاتے تھے دریا کے پانی میں مچھلیاں تیرتی ہوئی نظر آتی تھیں۔ ماضی کی حسین اداکارہ فردوس کو ہم نے کئی مرتبہ برقعہ پہنے راوی میں کشتی چلاتے دیکھا ہے کبھی راوی پر لاہور کے تمام معروف کالجوںپنجاب یونیورسٹی اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کی کشتیاں ہوتی تھیں اور سٹوڈنٹس کے درمیان کشتی رانی کے مقابلے ہوتے تھے بلکہ طالبات کے درمیان بھی مقابلے ہوئے تھے اور کوئین آف راوی کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ اب یہ ساری باتیں قصہ پارینہ ہو چکی ہیں۔ نہ راوی وہ رہا نہ وہ لوگ رہے نہ وہ اقدار رہیں۔
مغل حکمران لاہور کی سیر اور پانی کی تعریف کیا کرتے تھے بلکہ انگریزوں کے دور میں لاہور میڈیکل سکول (اب کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی) کے پرنسپل لاہور کے پانی کا باقاعدہ تجزیہ کیا کرتے تھے کبھی راوی میں دس سے زائد اقسام کی مچھلیاں ہوتی تھیں جن کا ذکر انگریزوں کے گزیٹر میں موجود ہے آج ہر رنگ کا زہریلا کیڑا اور گند راوی گندے نالے میں موجود ہے۔ ماہرین نے وارننگ دے دی ہے کہ دس سال بعد لاہور کا پانی پینے کے قابل نہیں رہے گا۔ زیر زمین سنکھیا کی مقدار خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ دوسری جانب کئی معروف پانی فراہم کرنے والی کمپنیاں سرکاری نلکوں سے پانی بھر کر بوتلیں فروخت کررہی ہیں۔ لاہور کے بے شمار سرکاری سکولوں میں واٹر فلٹریشن پلانٹ ہی نہیں جس پر وزیراعلیٰ نے صاف پانی مہیا کرنے والی کمپنی کے کئی ذمہ داران کو برطرف کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پورے صوبے میں دودھ اور پانی کے ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا ہے لوگ سیوریج ملا اور کھارا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ سوچیں یہ آلودہ پانی پیٹ کے اندر جا کر کیا تباہی کرتا ہوگا۔ آج ہر تیسرا اور چوتھا شخص آپ کو پیٹ کی تکلیف کی شکایت کرتا نظر آرہا ہے۔
یہ آلودہ پانی انسانی جان کی دوسری قتل گاہ ہے اور حکومت اب تک اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کرسکی۔
اب ذکر ہو جائے تیسری قتل گاہ، یہ جعلی ادویات کی بھرمار ہے۔ ملک کے گلی کوچوں اور مکانوں میں جگہ جگہ پراسرار فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں جہاں پر معروف ملٹی نیشنل کمپنیوں اور نیشنل کمپنیوں کی زیادہ فروخت ہونے والی ادویات پر بالکل اسی طرح کے لیبل لگا کر ادویات فروخت ہو رہی ہیں، خصوصاً کھانسی کے شربت تو بہت زیادہ مارکیٹ میں جعلی آچکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ وہ ان قتل گاہوں کو ختم کرکے دم لینگے اور ان کا مشن ہے کہ وہ ان جعلی اور غیر معیاری ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کا مکمل خاتمہ کر دینگے۔
جعلی ادویات کے حوالے سے ڈرگ ایکٹ میں ترامیم کر دی گئی ہیں۔ اب جعلی ادویات بنانے والے کو عمر قید، 5کروڑ جرمانہ ہوگا۔ حکومت کا یہ اقدام لائق تحسین ہے۔
ہماری معزز عدلیہ سے درخواست ہے کہ وہ جس طرح دودھ اور پانی کے معاملے میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہے اس طرح وہ جعلی ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کے خلاف بھی نوٹس لے اور مجاز اداروں کو حکم دے کہ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کرے۔
اس وقت ملک میں بے شمار علاقوں میں جعلی اور غیر معیاری ادویات تیار کی جارہی ہیں۔ غیر معیاری ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کو تو صرف ایک کروڑ جرمانہ یا چند ماہ کی سزا کی بجائے ان کے لائسنس مستقل طور پر کینسل کردینے چاہئیں۔پنجاب کے وزیر برائے پرائمری ہیلتھ خواجہ عمران نذیر نے ڈرگ انسپکٹروں کو ہدایت کی ہے کہ عوام کی رگوں میں زہر اتارنے والوں کے خلاف بے رحم کریک ڈائون کیا جائے اور ان لوگوں کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی دی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جعلی ادویات اور غیر معیاری ادویات تیار کرنے والی فیکٹریاں راتوں رات تو تعمیرنہیں ہوئیں بلکہ یہ فیکٹریاں برس ہا برس سے کام کررہی ہیں۔ ان علاقوں کے ڈرگ انسپکٹرز ان فیکٹریوں سے مدتوں سے ماہانہ رشوت لے رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو حکومت کرپٹ ڈرگ انسپکٹروں کے خلاف کریک ڈائون کرے۔ کوئی دو نمبر فیکٹری ڈرگ انسپکٹروں اور دیگر متعلقہ اداروں کے آشیرباد کے بغیر کام نہیں کرسکتیں۔
آخر میں ہم وزیراعلیٰ شہباز شریف سے کہیں گے کہ دونوں وزراء صحت کو باقاعدہ دفاتر دیئے جائیں تاکہ عوام کے ساتھ ان کا رابطہ رہے۔

.
تازہ ترین