• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسرائیل کی آبادی ایک کروڑ بھی نہیں ہے بلکہ صرف 80لاکھ ہے، آپ یوں سمجھ لیجئے کہ اس کی آبادی فیصل آباد شہر کے برابر ہے مگر اس ملک نے ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمانوں کی ناک میں دم کر رکھا ہے، مسلمان دنیا میں رسواء ہو رہے ہیں ان کے حالات یہ ہیں کہ ان کے اکثر ممالک کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں، باقی مسلمان ملک سخت ترین حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔لمحہ فکریہ ہے کہ ایک چھوٹا سا ملک اتنا طاقتور ترین کیسے بن گیا کہ مسلمان دنیا اس کے سامنے خاموش رہتی ہے، مسلمان ملکوں کے حکمرانوں نے پتہ نہیں کمزوریوں کی کونسی منازل طے کر رکھی ہے کہ ظلم و ستم پر بولنا بھی انہیں پسند نہیں، اس کی کئی ایک وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اس سلسلے میں مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے طرز عمل پر ضرور غور کرنا ہوگا۔
اسرائیل کی اصل طاقت کیا ہے اس کی گواہی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک چھوٹی سی خبر دے رہی ہے۔خبر کے مطابق اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہوکیخلاف آج سے نو ماہ قبل اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کو کرپشن کی شکایات موصول ہوئیں تو خفیہ ایجنسی نے نیتن یاہو کے خلاف نہ صرف نوٹس لیا بلکہ تحقیقات شروع کر دیں، پتہ چلا کہ یہ معاملہ آج سے کئی برس پہلے کا ہے، یہ معاملہ اس وقت کا ہے جب نیتن یاہو وزیر خزانہ تھا، اسرائیل نے اس کی وزارت خزانہ کے دوران فرانس سے آبدوزیں خریدی تھیں، الزامات کے مطابق یاہو نے ایک ملین یورو بطور رشوت لیکر مہنگے دامو سودا کیا تھا،جب تحقیقات مکمل ہوئیں تو اس کی ابتدائی رپورٹ اسرائیل کے اٹارنی جنرل کو ارسال کی گئی، اٹارنی جنرل نے معاملے کا جائزہ لیا اور پھر پولیس کو حکم دیا کہ وہ اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف کرپشن کا مقدمہ درج کرکے اگلے چند روز کے اندر اسے تحقیقات کیلئے تھانے بلائے۔اٹارنی جنرل کا یہ اقدام بالکل نارمل انداز میں تھا وہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ اٹارنی جنرل جمہوریت کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔نیتن یاہو نے بھی اسمبلی میں کھڑے ہو کر یہ نہیں کہا کہ یہ رقم فلاں فیکٹری فروخت کرکے میرے پاس آئی تھی، وہاں کسی نے یہ بیان نہیں دیا کہ آبدوزوں کا معاملہ مسلمانوں کی سازش ہے، وہاں کی اپوزیشن بھی فرینڈلی نہیں ہے ۔وہاں کسی نے یہ نہیں کہا کہ یاہو کو چھوڑ و بلکہ اس وقت سے احتساب کرو جب سے اسرائیل بنا ہے۔ وہاں یہ مطالبہ اس لئے نہیں ہو سکا کیونکہ اسرائیل میں اس سے پہلے بھی کئی وزیر، کئی وزرائے اعظم کرپشن ثابت ہونے پر جیل جا چکے ہیں۔وہاں ایسا ہو نہیں سکتا کہ حکمرانوں میں سے کوئی کرپشن کرے اور پھر بچ جائے۔ دوستو! جب حکمران کرپشن نہیں کرتے تو پھر نیچے کرپشن خودبخود رک جاتی ہے ۔
ایک ہم ہیں مسلمان، جن کی زندگیوں میں کرپشن پتہ نہیں کہاں سے آگئی ہے، اکثر مسلمان ملکوں میں بادشاہت ہے، چند ایک میں نام کی جمہوریت ہے شاید ایران ایسا ملک ہے جہاں کرپشن کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، اسی لئے ایران پابندیوں کے باوجود کھڑا رہا، اسے برباد کرنے کیلئے بہت کچھ کیا گیا مگر وہ زندہ سلامت نہ صرف کھڑا رہا بلکہ مضبوط ہوا۔ آج بھی ایرانی قوم جہاں کہیں بھی مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے آواز بلند کرتی ہے۔ اسلام آباد میں تمام مسلمان ملکوں کے سفارتخانے ہیں ظاہر ہے کہ یہ سب اپنے اپنے ملکوں کے مشن مکمل کرتے ہوں گے۔اس مرتبہ ربیع الائول کے مہینے میں نبی پاک ؐ کے یوم ولادت کے موقع پر ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے ایک یادگار تقریب منعقد کی۔تقریب کا لبِ لباب یہ تھا کہ ہم سب امت محمدی ؐ ہیں مگر ہم ایک کیوں نہیں، ہم دنیا میں کیوں رسواء ہو رہے ہیں، آج امت کو جو مسائل درپیش ہیں ان سے کیسے نکلا جا سکتا ہے اس تقریب میں مقررین کے طور پر ایرانی سفیر کے علاوہ مذہبی امور کے وفاقی وزیر سردار یوسف ، وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی، علامہ راجہ ناصر عباس، سابق وفاقی وزیر پیر نور الحق قادری، جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما لیاقت بلوچ، اہل سنت کے رہنما علامہ ریاض حسین شاہ، علامہ ساجد نقوی اور تقریب کے آخری مقرر کے طور پر یہ خاکسار تھا ۔
مقررین نے اسلامی تاریخ میں سے حوالے دیئے ، حالات کا رونا رویا اور زور دیا کہ مسلمان ایک ہو کر ہی دشمنوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں مگر افسوس کہ یہ تمام باتیں محض باتوں کی حد تک ہیں، مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں، مسلمان حکمرانوں کو دولت سے پیار ہو گیا ہے ہم اسلامی تاریخ میں سے جن ہستیوں کی مثالیں دیتے ہیں انہیں دولت سے پیار نہیں تھا، وہ اقتدار پر بادشاہت کے قائل نہیں تھے ، اوآئی سی مذاق بن کے رہ گیا ہے، اسلامی ملکوں کے دیگر ادارے بھی بے سود ہو کر رہ گئے ہیں اگر مسلمانوں میں کوئی دم خم ہوتا تو آج عراق، شام، لیبا، یمن، لبنان اور فلسطین سمیت دیگر مسلمان ملکوں میں تباہی و بربادی نہ ہوتی، ان ملکوں کے بچوں کی چیخوں میں کشمیر اور برما کے بچوں کی چیخیں شامل کر لیں اور پھر حضرت محمدؐ کے اس فرمان پر غور کرلیں کہ ’’....مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جیسے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے ایسے ہی مسلمان ہیں جب کسی ایک مسلمان کو تکلیف ہوتی ہے تو سب مسلمان تکلیف محسوس کرتے ہیں ....‘‘
مگر صاحبو، دوستو، بھائیو!آج کیا ہے ؟مسلمان ایک جسم کی مانند نظر نہیں آ رہے مسلمان ملکوں کے حکمران مفادات کے پجاری بن چکے ہیں، انہیں شاید خوف خدا بھی نہیں ، مسلمان ملکوں کے اندر صورتحال یہ ہے کہ مسلمان مسلمان کا گلا کاٹ رہا ہےایک دوسرے کو کافر قرار دیا جا رہا ہے، پتہ نہیں کہ ایک خدا، ایک رسولؐ اور ایک قرآن کے ماننے والے ایک دوسرے کیلئے مختلف کیوں ہیں ؟اس کا مطلب ہے مسلمان معاشروں میں وہ کچھ نہیں جس کی آرزو مسلمانوں کے نبی حضرت محمد ؐ نے کی تھی ۔یقین کیجئے اس روز تقریب کے دوران میری آنکھوں میں آنسو تھے بس پھر میرے دل میں جو تھا میں نے کہہ دیا، جو سچ ہو کہہ دینا چاہئے کہ آخری فتح سچ ہی کی ہے ۔
کل ایک اور تقریب میں گیا، آنکھوں میں پھر آنسو تھے، رفاع یونیورسٹی نے ان کی یاد میں ایک پروگرام رکھا تھا جو گزشتہ سال ہم سے بچھڑ گئے تھے، عبدالستار ایدھی، امجد صابری، حنیف محمد، کیپٹن جنجوعہ اور جنید جمشید شہید سمیت اور بھی تھے، بیرونی دنیا سے باکسر محمد علی کا نام بھی شامل تھا۔ ڈاکٹر طارق فضل کی تقریر جاری تھی کہ اس دوران ڈاکٹر عائشہ کمال بٹ چند دیگر لوگوں کے ساتھ ایک شخصیت کو بٹھانے کیلئے میری طرف آ رہی تھیں ، پورا ہال اس شخصیت کی طرف متوجہ تھا سب نوجوان، ماڈرن لڑکے لڑکیاں عالم اسلام کے اس قابل فخر سپوت کی طرف متوجہ تھے انہوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا، میں نے ہاتھ ملاتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ میں راوین ہوں، انہوں نے فوراً جھپی ڈال لی، میرے پاس بیٹھ گئے لوگ ان کے ساتھ تصویریں بنواتے رہے، ابھی انہوں نے خطاب کرنا تھا مگر لوگ خطاب سے پہلے ہی صرف انہی کی طرف متوجہ تھے، اس شخصیت کا نام مولانا طارق جمیل ہے ۔
مولانا طارق جمیل جو کبھی گورنمنٹ کالج لاہور میں گیت گایا کرتے تھے ، آج ان کا انداز ہی اور تھا مدت ہوئی وہ راہ راست پر چلے گئے، انہوں نے لوگوں کو اپنی گفتگو میں جکڑ لیا، پورا ہال خاموش تھا، صرف وہ محوِگفتگو تھے، انہوں نے بہت کچھ کہا، لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھی آ گئے مگر ایک بات زور دے کر کہی ،یاد رکھو’’....سچ بولو، دیانتداری اختیار کرو، انصاف کرو، اس کے مقابلے میں جھوٹ چھوڑ دو، بددیانتی یاد ھوکہ دہی چھوڑ دو، ظلم اور ناانصافی بند کر دو، اگر تم نے یہ کرلیا تو پھر تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں رہے گی.....‘‘
واپسی پر میں اور آمنہ ملک اکٹھے نکلے مگر میں سارا رستہ سوچتا رہا کہ جھوٹ تو ہمارے ملک میں لوگ فیشن سمجھ کر بولتے ہیں، پتہ نہیں سچ کیوں نہیں بولتے، شاید اسی جھوٹ پر طنزاً ظفر اقبال نے کہا تھا کہ ؎
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہئے


.
تازہ ترین