• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کبھی کبھی کچھ دانشوروں کی باتوں پر بڑی حیرانی ہوتی مگر اس وقت معاملہ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی کا ہے ۔سچ تو یہ کہ انہوں نے حکومت سے جو جنرل راحیل شریف کے حوالےسے وضاحت مانگی ہے وہ بڑی حد تک تعجب خیز ہے ۔کون نہیں جانتا کہ 39 اسلامی کی افواج میں پاکستان کی فوج بھی شامل ہے۔اگر اِس اتحادی فوج کی سربراہی بھی پاکستان فوج کے حصے میں آگئی ہے تو اس سے زیادہ خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے ۔جہاں تک جنرل راحیل شریف کے آرمی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد فوری طور پراس فورس کی کمان سنبھالنے کی بات ہے تو پاکستان آرمی کے قوانین کے مطابق آرمی اپنے کسی بھی ریٹائرڈ ملازم کوکسی وقت بھی ملازمت پر واپس بلا سکتی ہے ۔ یعنی راحیل شریف اس فورس کے کمانڈرانچیف ہونے کا معاملہ وزارت ِ خارجہ کا نہیں افواجِ پاکستان کا اندرونی ہے ۔پھر یہ بات کو ن نہیں جانتا کہ یہ معاملات سعودی عرب اور پاکستان میں بہت عرصہ پہلے سے طے شدہ تھے ۔ میں نے بارہ مارچ دوہزار سولہ کو لکھا تھا
’’وزیر اعظم محمد نوازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف نے اکٹھے روضہ ء رسول پر حاضری دی۔بارگاہِ چارہ ساز بیکساں میں بھیگی ہوئی آنکھوں کے ساتھ پاکستان کی بہتری کیلئے دستِ دعا بلند کئے اور اپنے دامن سعادتوں سے بھر لئے ۔ مسجد نبویؐ میں نوافل ادا کئے ۔چلو اِس شور وغوغا کی تو تردید ہوگئی ہے کہ دونوںشریف ایک پیج پر نہیں۔ آخروقت نے ثابت کردیا کہ دونوںشریف صرف ایک پیج پر نہیں ایک صف میں شانے سے شانہ ملا کرکھڑے ہیں۔افواج ِ پاکستان پرعمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنوں کا الزام لگانے والے اب کہاں ہیں۔ وہیں سے یہ ایک افتخاروں بھری خبر بھی آئی کہ یہ بات تقریباً طے ہوچکی ہے کہ 34مسلم ممالک کی اجتماعی فوج کے کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف ہوں گے۔وہ یہ عہدہ ریٹائرڈمنٹ کے بعد سنبھالیں گے ۔دیکھنے والوں کیلئے اس خبرکے پس منظر میں بہت سے منظر موجود ہیں۔‘‘
ایک بات یہ بھی ذاتی طور پر جنرل راحیل شریف کےلئے کہی جارہی ہے کہ انہیں ایسے فوجی اتحاد کا سربراہ نہیں بننا چاہئے تھا جس کے ساتھ تنازعات جڑے ہوئے ہیں ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انتالیس ممالک کی فوجی اتحاد میں پاکستان کی فوج بھی شامل ہے تو پھراعتراض جنرل راحیل شریف پر کیسا ۔ اُس میں ایک پاکستانی سپاہی شامل ہو یا جنرل ایک ہی بات ہے ۔اعتراض کی گنجائش تو اس وقت تھی جب وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا تھا ۔کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پاکستان اس اتحاد کا حصہ نہیں تو وہ غلط فہمی کا شکار ہیں بے شک قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں ایک و قرار داد پاس کی گئی تھی مگر وہ قرار داد اس اتحاد میں نہ شامل ہونے کے متعلق نہیں تھی وہ قرارداد صرف یمن کے خلاف جنگ میں پاکستانی افواج کا سعودی فوجی اتحادمیں حصہ نہ بننے کے متعلق تھی۔اس میں کہیں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ پاکستان اس فوجی اتحاد کا مکمل طور پر حصہ نہیں ہو گا ۔بی بی سی کے مطابق’’اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد میں مصر، قطر اور عرب امارات جیسے کئی عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ترکی، ملائشیا، پاکستان اور افریقی ممالک شامل ہیں۔‘‘ جن لوگوں کو میری بات پر یقین نہیں آرہا۔ وہ سعودی حکومت کی طرف سے جاری کردہ انتالیس ممالک کی فہرست دیکھ لیں کہ اس میں پاکستان کا نام ہے یا نہیں ۔وکی پیڈیا پر بھی ان ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نام موجود ہے۔
جنرل (ر) امجد شعیب کا اس حوالے سے بیان بڑا اہم ہے ان کے مطابق’’ جب سعودی حکام نے وزیراعظم نواز شریف سے بات کی تھی کہ جنرل راحیل شریف کو اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بنایا جائے جس کی انہوں نے اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پاکستان کیلئے اعزاز ہوگا۔مگر جنرل (ر) راحیل شریف نے اسلامی فوجی اتحاد کا سربراہ بننے کیلئے سعودی عرب کے سامنے 3 شرائط رکھی تھیں، پہلی شرط، ایران کو فوجی اتحاد میں شامل کیا جائے، چاہے وہ مبصر کی حیثیت سے ہی کیوں نہ ہو؟۔ دوسری شرط یہ تھی کہ وہ کسی کی کمان میں کام نہیں کریں گے، ایسا نہ ہو کہ اصل سربراہی کسی سعودی کمانڈر کے پاس ہو اور انہیں اس کے نیچے کام کرنا پڑے۔اور تیسری شرط یہ تھی کہ انہیں مسلم ممالک میں ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے صلح کار کے طور پر کام کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔‘‘۔سعودی عرب نے یہ تینوں شرائط تسلیم کیں تو اس کے جنرل راحیل شریف نے اتحادی افواج کی کمانڈ سنبھالی ۔اطلاعات کے مطابق انڈونیشیا تاجکستان اورآزربائیجان بھی چند روز تک اس اتحاد کا حصہ بن جائیں گے ۔جنرل راحیل کے کمانڈر انچیف بننے سے ان تینوں ممالک کے اس اتحاد پر جو خدشات تھے وہ ختم ہوگئے ہیں ۔ یمن کے مسئلہ کے حل کے بھی قویٰ امکانات پیدا ہوچکے ہیں ۔جنرل راحیل شریف ایران کے ساتھ مل کرحل نکالنے والے ہیں ۔ایران نے اس سلسلے میں اپنی رضامندی کا اظہار کر دیا ہے ۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف اسلامی اتحاد نہیں بلکہ یہ سعودی بادشاہت کو بچانے کےلئے بنایا گیا جسے اس وقت اپنے ہی دوستوں سے سخت خطرات لا حق ہیں یعنی مغربی دنیا سے ۔اگر یہ بات سچ ہے تو پاکستان نے اعلان کر رکھا ہے کہ ہر طرح کے خطرات میں پاکستان سعودی عرب کا مکمل طور پر ساتھ دےگا۔جنرل راحیل کے اس اتحاد کے کمانڈر انچیف پر سب سے زیادہ پریشانی بھارت کو ہوئی ہے ۔بھارت یہ سمجھتا ہے کہ جنرل راحیل ذہنی طور پر بھارت کے بہت زیادہ خلاف ہے اور اسے تباہ کر نا چاہتا ہے سو اتحاد کی سربراہی کے بعد جنرل راحیل کی وساطت سے پاکستان کے اثرات اور زیادہ بڑھ جائیں گے جو مشرق وسطی میں بھارت کےلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔



.
تازہ ترین