• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اکادمی ادبیات پاکستان کی چوتھی اہل قلم کانفرنس میں وزیر اعظم کے مشیر خاص عرفان صدیقی صاحب نے دنیا کے سامنے پاکستان کا روشن چہرہ پیش کر نے کے لئے نئے سال کو’’ضرب قلم‘‘ کا سال قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد تنگ نظری اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانا اور رواداری کو فروغ دینا ہے۔ لیکن ایک دن انہوں نے یہ اعلان کیا اور دوسرے دن اسلام آباد میں ہی ایک اہل قرطاس و قلم پروفیسر سلمان حیدر کو اغوا کر لیا گیا۔ سلمان کا جرم یہ ہے کہ وہ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے خلاف قلمی طور پر آواز اٹھا رہے تھے۔ انہیں کس نے اغوا کیا؟ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہے۔ ایک جماعت کا نام سامنے آیا تھا لیکن کہتے ہیں وہ اصل مجرموں کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے سامنے لایا گیا ہے۔ گویا ہمارے لئے تو ضرب قلم کا سال ہی زباں بندی سے شروع ہوا ہے۔ کہتے ہیں انسانی حقوق کے دوسرے دو کارکن بھی اسی طرح اغوا کئے گئے ہیں۔ ہم نے اس اغوا کے خلاف اس کانفرنس میں بات کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہاں ہماری بات سننے کی کسی کو فرصت ہی نہیں تھی۔ اب حکومت اس’’ضرب قلم‘‘ کی حرمت بحال کرنے کے لئے کیا کر رہی ہے؟یہ بھی کسی کو معلوم نہیں ہے۔
چلئے، اب ہم کانفرنس کی طرف چلتے ہیں۔ برسوں بعد اکادمی ادبیات کی یہ بین الاقوامی کانفرنس ہوئی ہے۔ دو مرتبہ یہ کانفرنس ملتوی کی گئی تھی۔ ایک مرتبہ عمران خاں کے دھرنے کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ وزیر اعظم کی مصروفیات کی وجہ سے۔ ظاہر ہے اکادمی ادبیات سرکاری ادارہ ہے۔ اس جیسے اداروں کو اپنے افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں کے لئے وزیروں اور صدروں کی ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ یہ زعمائے کرام ان اداروں کے لئے مالی امداد کا اعلان کرتے ہیں۔ اس کانفرنس کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں وزیر اعظم نے ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ لئے پچاس کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس رقم میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ پچاس کروڑ کہاں خرچ کئے جائیں گے؟ اس کا فیصلہ وزارت اطلاعات کا قومی تاریخ اور ادبی ورثہ ڈویژن کرے گا۔ اس ڈویژن کے سربراہ عرفان صدیقی ہیں۔ عرفان صاحب نے اپنی تقریر میں جب ان کاموں کی تفصیل بیان کرنا شروع کی جن پر یہ رقم خرچ کی جائے گی، تو ہمارا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اچھا؟! ادب اور ادیبوں کی یہ قسمت، کہ ان پر اتنی توجہ دی جا رہی ہے؟ مگر جب انہوں نے کہا کہ ان ادیبوں کی کتابیں بھی چھپوائی جائیں گی جنہیں کوئی ناشر نہیں ملتا، تو ہمارا ماتھا ٹھنکا۔ یہ تو بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے والی بات ہے۔ یہ تجربہ پہلے بھی کیا جا چکا ہے۔ ایوب خاں کے زمانے میں جب رائٹرز گلڈ بنایا گیا تھا تو اس نے بھی ادیبوں کی کتابیں چھاپنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ لیکن اس کا حشر کیا ہوا؟ کتابیں چھپوانے والوں کی قطاریں لگ گئیں۔ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ کس کی کتاب چھاپی جائے، اور کس کی نہیں۔ آپ لاکھ ایڈیٹوریل بورڈ بنا کر ان سے فیصلے کرائیں، یہ شور ضرور مچے گا کہ اپنے اپنوں کی کتابیں چھاپی جا رہی ہیں۔ آخرآپ کس کس کو خوش کریں گے، اور کس کس کو ناراض؟ خیر، ہم کون ہوتے ہیں اعتراض کرنے اور مشورے دینے والے۔ ہو سکتا ہے اس مرتبہ ایسا نہ ہو۔ بہرحال ارادے نیک ہیں۔ ضرورت مند ادیبوں کی جس طرح مدد کی جا رہی ہے، ہم تو اس پر خوش ہیں۔
کانفرنس چار دن کی تھی اور اگر حساب لگایا جائے تو چار دن میں پچاس سے زیادہ اجلاس ہوئے۔ ایک ہی وقت میں کئی کئی اجلاس۔ ہر اجلاس کا اپنا موضوع اور اپنے بولنے والے اور بحث کرنے والے۔ خوب گہما گہمی رہی۔ لیکن سوال کرنے والے بھی تو سوال کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ وہ سوال ہے جو ہر کانفرنس کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ سوال یہ کیا گیا کہ چار دن کی اس کانفرنس میں شرکت کے بعد ہم نے کیا حاصل کیا؟ کیا ہمارے علم میں کچھ اضافہ ہوا؟ کیا وہاں ایسے موضوع زیر بحث آئے جنہوں نے ہماری نیندیں اڑا دیں؟ علم تو اسی وقت حاصل ہوتا ہے نا، جب کچھ سوال اور کچھ مباحث ہماری نیندیں اڑا دیں۔ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس کانفرنس نے ہماری نیندیں نہیں اڑائیں۔ لیکن کچھ حاصل بھی ہوا۔ حاصل یہ ہوا کہ کشور ناہید کو ’’کمال فن‘‘ ایوارڈ مل گیا اور یہ ایوارڈ صدر ممنون حسین کے ہاتھوں ملا۔ یہ ایوارڈ 2016 کا ہے۔ پچھلے سال کا یہی ایوارڈ فہمیدہ ریاض کو ملا تھا۔ اس سے پہلے سال کا ایوارڈ عبداللہ حسین کا، اور اس سے پہلے کا افضل احسن رندھاوا کا تھا۔ یہ تفصیل ہم اس لئے بیان کر رہے ہیں کہ اس ایوارڈ کی رقم تو انہیں مل گئی تھی مگر ان کی شیلڈ اس سال ہی انہیں دی جا نے والی تھی۔ عبداللہ حسین چونکہ ہم میں نہیں رہے، اس لئے ان کی شیلڈ لینے ان کی صاحب زادی نور فاطمہ وہاں موجود تھیں۔ مگر فہمیدہ ریاض اور افضل حسین رندھاوا وہاں نہیں تھے۔ یہ دونوں صاحب فراش ہیں، اس لئے اسلام آباد نہیں آ سکے تھے۔ آئیے ہم ان کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کریں۔ اور ہاں ہمارا ایک حاصل کشور اور ناظر محمود اور صنوبر کی محفلیں بھی ہیں۔ تو ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے لئے اکادمی کی اس کانفرنس کا یہی حاصل تھا۔ یا پھر حاصل تھا نئی شاعرہ طاہرہ غزل کا یہ شعر؎
بکھرا بکھرا، بے ترتیب سا اپنا سارا گھر، لیکن
تیری یادیں تیری باتیں سب ترتیب سے رکھی ہیں
اور آ خر میں پھر ہماری آواز ان جی دار اور بے خوف لوگوں کے ساتھ ہے جوسلمان حیدر جیسے اہل قلم کے اغوا کے خلاف احتجاج کر ہے ہیں۔ اگر واقعی اس سال کو ’’ضرب قلم‘‘ کا سال قرار دینا ہے تو آ پ قلم اور اہل قلم کی آزادی کاتحفظ توکیجئے۔




.
تازہ ترین