• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس سے ملئے، یہ صابرہ ہے، اسم بامسمیٰ، اس کی صبح چھ بجے ہوتی ہے، چار بچے ہیں، ایک سند یافتہ نشئی خاوند ہے، گالیاں بکنے والے ساس سسر ہیں اور پانچ گھروں کا نہ ختم ہونے والا کام ہے۔ 24/7کا کیا مطلب ہوتا ہے اسے کچھ نہیں پتہ مگر اس کی زندگی، دن کے چوبیس گھنٹے اور ہفتے کے سات دن عذاب میں گزرتی ہے۔ یوں تو صابرہ کے چاروں بچے ہی غذائی قلت کا شکار ہیں مگر سب سے چھوٹا تو بے حد کمزور ہے، حکیم صاحب نے صابرہ کو کہا کہ بچے کو بادام کھلائو پھر اس کی صحت بہتر ہو گی، صابرہ غریب کی روٹی پوری نہیں ہوتی تھی بادام کہاں سے کھلاتی، خیر کچھ مہینے میں اس نے ہزار روپیہ جمع کیا اور ایک باجی جس کے گھر کام کرتی تھی اس کی منّت کی کہ بادام لا دے۔ باداموں کا لفافہ لے کر صابرہ اپنے پیر صاحب کے پاس گئی تاکہ انہیں دم کر دیں، پیر صاحب نے دم کردیا اور ایک تعویذ بھی دیا کہ اسے باداموں والے برتن میں رکھ دینا، دونا اثر ہوگا۔ گھر میں وہ برتن اس کی ساس کے ہاتھ لگ گیا جس میں تعویذ دیکھ کر اُس نے آسمان سر پر اٹھا لیا، صابرہ کو دوہتڑ مارے اور الزام لگایا کہ تم میرے بیٹے کو قابو میں رکھنے کے لئے جادو ٹونا کرواتی ہو، واضح رہے کہ جس بیٹے کی یہاں بات ہو رہی بطور خاوند اس سے بڑی اذیت صابرہ کے لئے دنیا میں کوئی نہیں، بہرحال اس کے بعد وہ برتن بحق ساس ضبط کر لیا گیا۔ بچے اور صابرہ کا کیا حال ہوا ہوگا، یہ جاننے کے لئے ایک دن اُس ڈیڑھ مرلے کے گھر میں گزارنا ہوگا جس میں آٹھ لوگ رہتے ہیں۔
صابرہ کو اُس کے حال پہ چھوڑتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ یہ ہجرت پر مجبور ایک شامی خاندان ہے، میاں بیوی اور تین بچے ہیں، سب سے چھوٹی بچی ڈیڑھ برس کی ہے جو ماں کی گود میں ہے، نیلی آنکھوں والی یہ بچی حیرت اور خوف سے اپنے اردگرد تنی بندوقوں کو دیکھ رہی ہے، ماں اسے بار بار پچکارتی ہے کہ کہیں بچی ڈر کے مارے رو نہ پڑے، خاوند جو کبھی ایک تنومند شخص ہو گا اس وقت حسرت و یاس کی تصویر بنا ہے، وہ اُن سینکڑوں مہاجرین کے ساتھ خاردار تاروں سے سیل کی ہوئی سرحد پار کرکے اپنے خاندان کو محفوظ مقام پر پہنچانا چاہتا ہے مگر سرحدی محافظو ں کی بندوقیں بتا رہی ہیں کہ اگر اُس نے ایسی کوئی کوشش کی تو بے دریغ گولی مار دی جائے گی، عورتوں اور بچوں کی پرواہ بھی نہیں کی جائے گی۔ بچے اپنے باپ کو عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، وہ باپ جس کے بازوئوں میں آکر وہ خود کو اس کائنات میں سب سے محفوظ سمجھتے تھے، وہ باپ جو ان کی ایک مسکراہٹ پر اپنی جان نچھاور کر دیتا تھا، وہ باپ جو ان کے لئے کڑی دھوپ میں سائبان تھا، آج اسی باپ کو مجبور، بے یارومددگار اور بے بس دیکھ کر وہ خوف سے کانپ رہے تھے، اِن بچوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک دن وہ سڑک کے کنارے کسی خیمے میں سردی سے ٹھٹھر رہے ہوں گے اور اُن کا باپ جسے وہ دنیا کا سب سے طاقتور انسان اور سب سے زیادہ محبت کرنے والا شخص سمجھتے تھے، اُنہیں سردی سے کانپتا دیکھ کر کچھ کرنے کی بجائے خود بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گا۔
اِس شامی خاندان کو بھی اِس کے حال پر چھوڑتے ہیں اور بھارت چلتے ہیں۔ یہ ہندوستان کا ایک دور افتادہ گائوں ہے، یہاں بھارت سرکار کا ’’سمویدھان‘‘ (آئین )نہیں چلتا، یہاں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس ہے، نچلی ذات والوں سے جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا ہے، معمولی بھول چوک پر اُن کے پائوں کے ناخن نوچ لیے جاتے ہیں، ان کی لڑکیاں اٹھا لی جاتی ہیں، اور جو بچ جاتی ہیں اُن کی زندگی جہنم سے بھی بری گزرتی ہے، کئی کئی میل تک انہیں سر پر برتن اٹھا کر پانی بھرنے کے لئے چلنا پڑتا ہے، پورے گائوں میں کوئی اسپتال تو دور کی بات ڈسپنسری یا ڈاکٹر نام کی بھی کوئی چیز نہیں، اگر کوئی بیمار ہو جائے تو اسے ضلع کے اسپتال لے جانا پڑتا ہے جو کئی میل کے فاصلے پر ہے جہاں پہنچنے کے لئے سواری نہیں ملتی۔ اِس گائوں میں ایک غریب آدمی کی حاملہ بیوی پانی بھرتے ہوئے پھسل کر زخمی ہو گئی، خاوند بیچارہ بھاگم بھاگ پہنچا اور اپنی بیوی کو اس حال میں دیکھ کر پاگل ہو گیا، جیسے تیسے اسے ایک کپڑے میں لپیٹا اور پھر کپڑے کے دونوں سروں کو ایک بانس پر باندھ کر پیادہ ایمبولنس بنائی، ایک طرف سے خود اٹھایا اور دوسری طرف سے اُس کے باپ نے اور کئی میل پیدل پہاڑ چڑھ کر وہ گھنٹوں بعد ضلع کے ہسپتال پہنچے۔ بدقسمتی سے ٖڈاکٹر کوئی معجزہ نہیں دکھا سکا، غریب کی جورو مر گئی مگر ایک زندہ بچی پیدا کر گئی۔ وہ بچی بھی ایسے ہی جئے گی جیسے اس کی ماں جی رہی تھی اور پھر اُس کی بچی بھی اُس گائوں میں ویسی ہی زندگی گزارے گی جیسی اس کی ماں گزارتی تھی۔ تین نسلوں کی یہ غلامی آج اکیسویں صدی میں بھی رائج ہے۔
بھٹے میں کام کرنے والے بچے، خاندانی غلام، مردوں کے اس معاشرے میں پسی ہوئی عورتیں، پچاس ہزار روپوں کے لئے بچوں کو گروی رکھنے والے والدین، گھروں سے دربدر ہونے والے آئی ڈی پیز، کسی بم دھماکے میں مرنے والے کے لواحقین، کسی لاپتہ فرد کے گھر والے، کوئی جیل میں پستا ہوا بے گناہ قیدی، دو وقت کی روٹی کے لئے سولہ گھنٹے کام کرنے والے....صابرہ سے لے کر شامی خاندان تک ایک لامتناہی فہرست ہے اس سفاک دنیا میں برپا ہونے والی نا انصافیوں کی۔ اگر مجھ سمیت آپ میں سے کسی کا یہ خیال ہے کہ دنیا نے ہمارے ساتھ بہت نا انصافی کی تو ایک مرتبہ اس فہرست کو اپنے ذہن میں دہرا لیں، افاقہ ہوگا۔



.
تازہ ترین