• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سلاطین، بادشاہوں اور حکمرانوں کے بارے میں عام طور پر یہی سنتے آئے ہیں کہ تمام حکمراں عوام کے مصائب اور مسائل کی پرواہ کئے بغیر ان پر حاکمیت اور اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے ہرقسم کا دبائو ڈالتے رہے اور یوں اپنی حاکمیت کو چلاتے رہے ہیں۔ جمہوریت میں بادشاہت یا ڈکٹیٹر شپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم تو کردیا گیا لیکن حکمراں کبھی بھی اپنی حاکمانہ زعم سے باہر نہ نکل سکے۔ اگرچہ حکمراں عام انتخابات کے مواقع پر ووٹ لینے کے لئے وقتی طور پر عوام میں ضرور گھل مل جاتے ہیں لیکن دل ان کا عوام کے (عوام پروف) نہیں بلکہ خصوصی طبقے ہی کے لئے دھڑکتا رہتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس حکمراں کو خوفِ خدا ہو اور جسے بندوں کے حقوق کا احساس ہو تو پھر وہ حکمراں کبھی بھی عوام کو اپنا غلام نہیں سمجھتے اوران پر ظلم و ستم نہیں ڈھاتے بلکہ ان سے خوش اسلوبی سے پیش آتے ہیں۔ موجودہ دور میں یا ماضی قریب میں عالم اسلام کے حکمرانوں پر جب ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو آپ کو مشکل ہی سے کوئی خدا ترس حکمراں دکھائی دیتا ہے جو حقوق العباد کو اولیت دیتا ہو حالانکہ مذہب اسلام میں حقوق العباد کو حقوق اللہ پر فوقیت حاصل ہے۔ عالمِ اسلام میں اس وقت کئی مسائل حل طلب ہیں جن میں مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر، مسئلہ قبرص، روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم، شام میں خانہ جنگی اور پناہ گزینوں کا مسئلہ پیش پیش ہے۔
مغربی ممالک ہمیشہ ہی دکھی انسانیت کا پروپگنڈہ کرتے ہوئے دنیا بھر میں حقوقِ انسانیت کا پرچار کرتے چلے آرہے ہیں لیکن دیکھا جائے تو اس وقت عالم ِ اسلام کو جتنے بھی مسائل درپیش ہیں ان کے پیچھے کسی نہ کسی طرح مغرب ہی کا ہاتھ کار فرما رہا ہے۔ پہلے وہ مسلمانوں کے لئے مسئلہ کھڑا کرتے ہیں پھر اس کی آبیاری کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں کے سر پر بھی یہی تھوپتے ہیں۔
مغربی ممالک اس وقت ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں اور ان کو ڈکٹیٹر قرار دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لئے ہوئے ہیں اور بد قسمتی سے ہمارا میڈیا جو کہ مغربی میڈیا ہی سے خبریں حاصل کرتا ہے تحقیقات کئے بغیر اپنے ہی دوست اور برادر ملک کے رہنما کے بارے میں نا چاہتے ہوئے بھی ان خبروں کا اسیر بنا ہوا ہے۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کو اس صورتحال سے بچنے کے لئے براہ راست ایک دوسرے سے خبروں کا تبادلہ کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ دونوں ممالک کی خبر ایجنسیوں اور ٹی وی چینلز کے معاہدے تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمِ اسلام کے عظیم رہنماؤں میں سے ترکی کے صدر ایردوان ابتدا ہی سےعالمِ اسلام کے مسائل اور دکھی انسانیت کی جانب بھرپور توجہ دیتے چلے آئے ہیں۔ انہوں نے 2008ء میں غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے حملے کے بعد اپنے ملک کے قدیم حلیف اسرائیل کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ ترکی کا احتجاج یہیں نہیں رکا بلکہ اس حملے کے فوری بعد ڈاؤس عالمی اقتصادی فورم میں رجب طیب ایردوان کی جانب سے اسرائیلی صدر شمعون پیریز کے ساتھ دوٹوک اور برملا اسرائیلی جرائم کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد ڈاؤس فورم کے اجلاس کے کنویئر کی جانب سے انہیں وقت نہ دینے پر فورم کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا اور فوری طور پر وہاں سے لوٹ گئے۔ اس واقعہ نے انہیں عرب اور عالم اسلام میں ہیرو بنا دیا۔ اس کے بعد31مئی بروز پیر2010ء کو محصور غزہ کی پٹی کے لئے امدادی سامان لے کر جانے والے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی کمانڈوز کے حملے جس کے نتیجے نو ترک باشندے شہید ہوگئے پر ایردوان نے نہ صرف اسرائیلی سفیر کو ترکی سے نکال باہر کیا بلکہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کو محدود کردیا اور اس طرح وہ ایک بارپھر عالم عرب میں ہیرو بن کر ابھرے اور جس طرح انہوں نے اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے اور نو شہدا کا ہرجانہ ادا کرنے پر مجبور کیا، وہ انہی کا خاصہ ہے۔ آج تک کسی اور اسلامی رہنما کو اسرائیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کی جرات نہیں ہو سکی ہے۔ ایردوان کے دل میں صرف فلسطینیوں کا دکھ نہیں ہے بلکہ انہوں نے جس طرح میانمار کے مسلمانوں کے دکھ، درد اور ہونے والے ظلم و ستم میں گہری دلچسپی لی ہے وہ علاقے کے دیگر مسلمان رہنماوں اور او آئی سی کے لئے ایک سبق کی بھی حیثیت رکھتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق بیس ہزار سے زیادہ مسلمان شہید اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔ ترکی نے میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو رکوانے اور ان کو امداد فراہم کرنے کے لئے اپنی بھرپور کوششوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ ترکی کے سابق وزیراعظم احمد داوؤد اولو نے اسی مقصد کے لئے میانمار کا دورہ بھی کیا تھا اور میانمار حکام کو مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں متنبہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے میانمار کا دورہ کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کو ہر قسم کا تعاون فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی اور ترکی کے ترقیاتی اور تعاونی ادارے تیکا نے روہنگیا مسلمانوں کو امداد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
ایردوان نے شام کی خانہ جنگی کے بعد ترکی کے دروازے شامی باشندوں کے لئے کھول رکھے ہیں اور تین ملین کے لگ بھگ باشندوں کو پناہ دے رکھی ہے اب ترکی میں موجود ان شامی باشندوں میں سے زیادہ تر کو ترکی کی شہریت عطا کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کرنے جا رہے ہیں۔ وہ ان باشندوں کو شہریت عطا کرتے ہوئے مغرب کو یہ درس دینا چاہتے ہیں کہ صرف چند ایک ہزار لوگوں کو اپنے ملک میں پناہ دے کر دکھی انسانیت کی خدمت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی دنیا میں پناہ گزینوں کا واویلا مچایا جاسکتا ہے۔ صدر ایردوان مغربی ممالک کی طرح سینکڑوں افراد کو نہیں بلکہ لاکھوں افراد کو ترکی کی شہریت عطا کرتے ہوئے دکھی انسانیت کی بڑے پیمانے پر خدمت سر انجام دینے جا رہے ہیں۔
ایردوان عالم اسلام کے وہ واحد رہنما ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما وں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد سے قبل بنگلہ دیش کی حکومت سے قریبی رابطہ قائم کرتے ہوئے ان رہنماوں کو پھانسی کی سزا دینے سے روکنے کی کوشش کی لیکن بنگلہ دیش کی رہنما حسینہ واجد کی جانب سے ان کی اپیل پر کوئی توجہ نہ دیئے جانے پرشدید ردِ عمل اور پاکستان کے ساتھ یکجہتی کے طور پر ترکی کے سفیر کو بنگلہ دیش سے واپس بلوا لیا۔
صدر ایردوان نے پاکستان میں 2005ء میں آنے والے شدید زلزلے اور پھر 2010ء میں پاکستان میں شدید سیلاب کی وجہ سے خود اور اپنی اہلیہ کے ہمراہ پاکستان کے لئے جس طریقے سے امدادی مہم میں حصہ لیا تھا اس کی دنیا بھر میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے پاکستان کے عوام کے دکھ درد میں شریک ہو کر پاکستان کے ساتھ نہ صرف اپنی یکجہتی کا اظہار کیا بلکہ عوام کو خود دلاسہ دیتے اور گلے لگاتے ہوئے اپنے درد مند انسان ہونے کا ثبوت فراہم کیا تھا۔



.
تازہ ترین