• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسپین کے موجودہ بادشاہ ’’فلپ اے ششم‘‘ نے اپنی بہن شہزادی کرسٹینا سے شاہی لقب واپس لے لیا، وجہ یہ کہ شہزادی اور اُس کے شوہر ’’اناکی ارداگارن‘‘ پر اختیارات کا غلط استعمال، منی لانڈرنگ، غبن اور دھوکہ دہی کے الزامات ہیں۔ شہزادی کا شوہر اسپین کی ہینڈ بال قومی ٹیم کا کھلاڑی تھا۔ شہزادی کرسٹینا اور اُس کے خاوند پر مقامی عدالت میں اِن الزامات کے تحت عام شہریوں کی طرح مقدمہ زیر سماعت ہے، اور دونوں عدالت میں پیش ہوتے ہیں، یہ ہے کسی بھی جمہوری ملک میں انصاف کا تقاضا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ شہزادی اپنے شاہی محل سے ہی مقدمے کی پیروی کرتی، اپنے وکلاء کے ذریعے تاریخیں لیتی رہتی، اپنے رُعب و دبدبے سے مقدمے کے مدُعی کو ڈرا دھمکا لیتی،لیکن ایسا اسپین میں ممکن نہیں، ہسپانوی سپریم کورٹ نے معروف ترین جج ’’بلتا گارزن‘‘ کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کا جرم ثابت ہونے پر انہیں قانون یا کسی بھی سرکاری شعبے میں فرائض سر انجام دینے کے حوالے سے 11سال کے لئے نااہل قرار دے دیا۔قبرص کے سابق وزیر دفاع ’’کوسٹاس پاپا‘‘ کو پانچ سال قید کی سزا دی گئی، ایک بارودی دھماکے میں 13افراد کی ہلاکت ہوئی اور اس واقعے کو وزیر دفاع کی غفلت قرار دیتے ہوئے انہیں سزا سنائی گئی حالانکہ وہ دھماکا کرنے یا کرانے میں شامل نہیں تھے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم ’’نتین یاہو‘‘ سے پولیس تین گھنٹے کی تفتیش کرتی ہے، الزام یہ کہ وزیر اعظم نے غیر ملکی شخصیات سے غیرقانونی تحائف وصول کئے ہیں، اسرائیلی اٹارنی جنرل کی طرف سے اِن الزامات کی انکوائری کا حکم ملتے ہی پولیس ایکشن میں آتی ہے، نہ وزارت عظمیٰ کا ڈر اور نہ ہی کوئی سیاسی دباؤ، نتین یاہُو، اس موقع پر بجائے ’’بڑھکیں‘‘ مارنے کے کہتے ہیں کہ پولیس کو اُن کا کام کرنے دیا جائے، میرے مخالفین خوش نہ ہوں، کیونکہ اِن الزامات میں کوئی صداقت نہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ’’ایہود اولمرٹ‘‘ کو رشوت لینے اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے پر 19ماہ کے لئے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایران کے سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کو حکومت مخالف پروپیگنڈہ کرنے کے الزام میں 6ماہ کے لئے جیل کی سزا سنائی جاتی ہے۔ چین کی مرکزی عدالت سابق نائب وزیر کھیل’’ژیاو تیان‘‘ پر کرپشن ثابت ہونے پرانہیں 10سال کے لئے جیل بھیج دیتی ہے۔ جنوبی لاطینی ملک ایکواڈور میں ایک مقامی عدالت کی طرف سے سابق وزیر پٹرولیم ’’کارلوس پریجا‘‘ پر بد عنوانی اور کرپشن کے الزامات کے تحت انہیں جیل کی ہوا کھانی پڑی ہے۔ اٹلی کے سابق وزیر اعظم ’’سلویو برلسکونی‘‘ کو رشوت ستانی میں ملوث ہونے پر تین سال جیل کی سزا ہوئی، اور اِس سے پہلے بھی انہیں ٹیکس چوری کے الزام میں سزا کے طور پر سماجی خدمات سر انجام دینے کا حکم ہوا تھا۔ ترکی کی خاتون اوّل کی طرف سے پاکستانی سیلاب زدگان کی امداد کے لئے دیا جانے والا قیمتی ہیروں کے ہار کا واقعہ اور یہ کس کے گھر پہنچا سب کے علم میں ہے، امانت میں خیانت کے اِس جُرم میں سزا سُنانے والا پاکستان میں کوئی کیوں نہیں؟ اس پورے واقعے کو ایک غلطی قرار دیا گیا سمت ظریفی یہ کہ ہار واپس مل گیا مگر یہ کسی کو معلوم نہیں کہ اب وہ کس کے پاس ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے ایک گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے معاملے کا ڈراپ سین ہو گیا۔ طیبہ کے والد نے مقدمے کو بے بنیاد قرار دے کر راضی نامہ کر لیا، اور ملوث افراد کو معاف بھی کر دیا۔ کمسن بچی کے جلے ہوئے ہاتھ، زخمی چہرہ اور پھٹا سر کسی کو نظر نہیں آیا۔ کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کیس میںدس سالہ طیبہ کو انصاف ملا یا نہیں، مگر ملوث افراد کو ضرور مل انصاف مل گیا۔ دو سال سے طیبہ کو ملنے کے لئے نہ آنے والے والدین نے راضی نامہ کر لیا۔ یہ دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا وہی کیس ہے جس میں سوشل میڈیا پر بچی کی تشدد بھری تصاویر عام ہوئیں اور ہیومن رائٹس کمیشن کے حکم پر پولیس نے بچی کو جج صاحب کے گھر سے برامد کیا تھا۔ بچی نے مجسٹریٹ کو بتایا تھا کہ اُس پر تشدد ہوتا، کھانا نہیں دیا جاتا تھا، ٹینکی کے ساتھ اندھیرے کمرے میں سُلا دیا جاتا تھا، بچی نے بتایا کہ جھاڑو گم ہونے پر اُسے مار پڑی تھی، مالکن نے ہاتھ جلتے چولہے پر رکھ دئیے اور ڈنڈا طیبہ کے منہ پر دے مارا تھا جس کے نشانات طیبہ کے منہ پر واضح تھے۔ سب کچھ سامنے ہے مگر کیا انصاف ملا یہ سب کے سامنے ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لیا ہے اب امید کی جاسکتی ہے کہ انصاف اپنے صحیح معنوں میں ملے گا؟ یہ ٹھیک ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے لیکن طیبہ تشدد کیس کو دیکھ کر یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے بینائی رکھنے والا قانون جان بوجھ کر اندھا ہو گیا ہے۔ دُنیا کے دوسرے ممالک میں انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے سرکاری عہدوں، وزارتوں اور بادشاہت کا کوئی عمل دخل یا ڈر نہیں ہوتا بس وہاں انصاف کرنا ہوتا ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جن ممالک میں بلاامتیاز انصاف مہیا ہوتا ہے وہ ہی ترقی کرتے ہیں۔ پاکستان کی ترقی کا راز بھی عدالتی نظام میں بہتری اور انصاف کے تقاضوں کو یقینی بنانے میں پنہاں ہے۔ لیکن یہاں ایسا کیوں نہیں؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے، پاکستان میں لیبرچائلڈ اور بچوں کے حقوق پر کام کرنے کے لئے دُنیا بھر سے فنڈز اور چندہ لینے والی تنظیمیں آج کہاں ہیں، کیا انہیں طیبہ اور ایسی کئی بچیوں پر ہونے والے ظلم نظر نہیں آتے؟ اب ان تنظیموں کے نمائندے طیبہ کو انصاف دلوانے کے لئے سڑکوں پر کیوں نہیں نکلے؟ حالانکہ پاکستان کی کمسن ملازمہ پر ہونے والے ظلم و تشدد کے اِس واقعہ کا اسپین سمیت دوسرے یورپی ممالک نے گہرا اثر لیا ہے۔
ہاتھ انصاف کے چوروں کا بھی کیا میں کاٹوں
جرم قانون کرے اور سزا میں کاٹوں
تیرے ہاتھوں میں ہے تلوار میرے پاس قلم
بول سر ظلم کا تُو کاٹے گا، یا میں کاٹوں



.
تازہ ترین