• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
غالباً1932کا واقعہ ہے ڈی اے وی کالج لاہور میں تاریخ کے استاد لالہ ابلاغ رائے نے ایک مقالہ شائع کیا، یہ مقالہ ہندوستان کے مشہور اخبار ٹریبیون میں شائع ہوا اس میں انہوں نے اپنی تحقیقات پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ جنوبی امریکہ کی دریافت کرنے والے ایک ہندو مذہبی رہنما تھے جن کا نام ارجن دیو تھا اور یہ جو ملک ارجنیٹنا ہے انہی ارجن دیو کے نام پر ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں ارجنیٹناجنوبی امریکہ کا ایک ساحلی ملک ہے۔ لالہ ابلاغ رائے کا یہ مقالہ شائع ہوا تو مسلمانوں میں کھلبلی مچ گئی یہ کھلبلی یہاںتک بڑھی کہ مسلمانوں کو یوں نظر آنے لگا جیسے ہندو ان سے بازی لے گئے ہیں ان حالات میں مولانا ظفر علی خان اٹھے اور انہوں نے مسلمانوں کے جذبات کی تسکین کا سامان فراہم کیا۔مولانا ٖظفر علی خان نے اپنے اخبار ’زمیندار‘‘ میں ایک مضمون شائع کیا جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ جنوبی امریکہ کی دریافت ایک مسلم درویش حضرت شیخ چلی نے کی تھی۔ چنانچہ جنوبی امریکہ کا ایک ملک آج تک انہیں کے نام پر منسوب چلا آرہا ہے۔ اس ملک کانام ’’چلی‘‘ ہے۔
یہ ایک دلچسپ مثال ہے جو بتاتی ہے کہ بیسویں صدی کے نصف اول میں ہندوئوں اور مسلمانوں میں کس قسم کے ’’ قومی مقابلے‘‘ جاری تھےاور یہ دونوں فریق کس طرح بات بات پرایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوتے تھے یہ مقابلہ نہ صرف تقسیم ملک تک جاری رہا بلکہ قیام پاکستان کے بعد آج تک جاری وساری ہے، اس مزاج کا یہ نتیجہ ہوا کہ برصغیر کے مسلمان جو کہ تقسیم ملک کے بعد پاکستانی کہلائے انہوں نے اپنی حقیقی مسائل سے آنکھیں چرا کر فروعی مسائل میں پناہ لینا شروع کردی پاکستانی اپنے مذہب وملت اور ترقی وتعمیر کو زندہ اور جاری وساری رکھنے کی بجائے اس کو شش میں لگ گئے کہ وہ ہندو قوم کی ہرچیز کا ایک اسلامی جواب اپنے یہاں فراہم کریں۔ہولی کے جواب میں شب برات، ہندومہابھارت کے جواب میں شاہنامہ اسلام ڈ اور ی (داج) کے جواب میں جہیز کریا کرم کے جواب میں میت کی بے شمار رسوم۔وغیرہ وغیرہ اس قسم کی بے شمار رسوم اور لوازمات جو ہمارے یہاں نظر آتے ہیں وہ سب اسی جوابی ذہنیت کا نتیجہ ہیں۔ ہم لوگوں نے اسی پربس نہیں کیا بلکہ اٹیمی دھماکوں کے جواب میں ہندوستان سے بڑھکر دھماکے کئے۔ اس نے گاندھی کی زندگی پرفلم بنائی توہم نے محمد علی جناح نامی فلم بناڈالی( اسکی تفصیلات کی ایک الگ کہانی ہے) سچ تویہ ہے کہ میں اس نکتہ کو نہیں پاسکا کہ ہم ہر وقت حالت مقابلہ میں کیوں رہتے ہیں ہم ہر وقت ہندوستان سے ادب وفن، ثقافت، سیاست، صحافت فلم ٹی وی غرض کہ ہر محاذ پرکیوں خوامخواہ مقابلے کیلئے اکھاڑے میں اترے ہوئے ہیں ہم کیوں اپنی ترقی کے بارے میں نہیں سوچتے ؟ بھارت اپنی کمپیوٹر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر اکیسویں صدی کے دروازے پر دستک دے چکا ہے جبکہ ہمارے حکمراں ہمیں بائو ٹرین پر اکیسویں صدی میں لے جانا چاہتے ہیں۔میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ ہمارے حکمراں پاکستان اور پاکستانیوں کو بائوٹرین پر اکیسویں صدی میں نہیں لے جاسکتے۔ اس کیلئے ہمیں ’’نئی ایجادات‘‘ کا سہارا لینا ہی پڑے گا۔ مان لیا کہ یہ دنیا مقابلے کی دنیا ہے یہاں ہرایک دوڑ رہا ہے۔ ہرایک دوسرے کا پیچھا کرکے آگے بڑھ جانا چاہتا ہے اس کے نتیجہ میں لازماً ٹکراو کے مواقع آتے ہیں۔ قانون فطرت کی بناپر وہ ہرجگہ پیش آئیں گے خواہ وہ دسویں صدی ہو بیسویں یا اکیسویں صدی ہو، خواہ وہ جاپان ہو بھارت یا پاکستان، غرض کہیں بھی مسابقت کی یہ حالت ختم ہونے والی نہیں۔ ہم مقابلے کی حالت کو ختم نہیں کرسکتے البتہ ہم اپنے آپ کو اس دوڑ سے بچا سکتے ہیں اور اپنے آپ کو بچانے کا واحد نسخہ وہی ہے جسے چشم پوشی یعنی اغراض کہاگیا ہے اگر کوئی کچھ بھی کہے آپ ان پر توجہ نہ دیجئے آپ ہاتھی کی خاموشی اختیار کیجئے کہ ہاتھی کی خاموشی ہی سب پر بھاری ہے۔
جہاں سرور میسر تھاجام ومے کے بغیر
وہ میکدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں



.
تازہ ترین