• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فوجی عدالتوں کا دوبارہ قیام، پی پی ، جے یو آئی مخالف، پی ٹی آئی کے تحفظات، پارلیمانی اجلاس بے نتیجہ ختم

اسلام آباد(نمائندہ جنگ) فوجی عدالتیں دوبارہ قائم کرنی ہیں یا نہیں؟ اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی لیڈرز کااجلاس بے نتیجہ ختم ہوگیا۔ اجلاس 17 جنوری کو پھر ہوگا۔ اپوزیشن اورحکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی دوبارہ فوجی عدالتیں قائم کرنے کی مخالفت کردی، اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنمائوں کے اجلاس کے دور ان جمعیت علمائے اسلام اور پیپلز پارٹی نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی مخالفت کردی،جبکہ تحریک انصاف نے بھی تحفظات کا اظہار کیا جسکے باعث پہلا اجلاس کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہوگیا تاہم حکومت نے معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی بھی حتمی فیصلہ تمام سیاسی جماعتوںکی مشاورت سے کیا جائیگا۔ اپوزیشن نے نیب ترمیمی آرڈیننس کے اجراء پر بھی احتجاج کیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ روزاول سے ہمارا موقف ہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت نہیں لیکن حکومت کا مقصد ہے، ادارے بناتا جاکرپشن بڑھاتا جا، پہلے مجبوری میں حمایت کی اب نہیں کرینگے، فوجی عدالتوں کی کارکردگی پر بریفنگ دی جائے۔ اکرم درانی نے بھی کہا کہ وہ فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کرینگے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت پہلے اپنے ارکان کوعدالتوں کی توسیع پرمتفق کرے۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی، جے یو آئی (ف) ایم کیوایم پاکستان اور جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما موجود تھے۔ اجلاس میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کے حوالے سے آئینی ترمیم ،ْنیب آرڈیننس میں ترمیم یا نئے نیب قانون پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر قانون زاہد حامد نے فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سے متعلق بریفنگ دی۔ اسپیکرقومی اسمبلی نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ فوجی عدالتوں کے قیام کی توسیع کے معاملے پر تمام اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لیکرمشترکہ مشاورت اوراتفاق رائے سے فیصلہ کیا جائے۔ پیپلزپارٹی نے فوجی عدالتوں کی توسیع کے فیصلے کی مخالفت کردی اور نیب ترمیمی آرڈیننس کے اجرا پربھی احتجاج کیا۔ دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی نیب ترمیمی آرڈیننس پر اظہار برہمی کیا۔حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے رہنما اکرم درانی نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حوالے سے پرانے مؤقف پرقائم ہیں ہم فوجی عدالتوں کی حمایت نہیں کرینگے۔ قبل ازیں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی زیرصدارت اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی کے نوید قمر، تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری اور جماعت اسلامی کے صاحبزاہ طارق اللہ نے شرکت کی۔ تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نےمیڈیا سے بات چیت کے دوران کہاکہ دہشت گردی کوروکنا حکومت کی ذمے داری ہے، دو سال میں جب تک فوجی عدالتیں کام کرتی رہیں،حکومت عدالتی نظام کی کمزوریاں دور کرنے میں ناکام رہی، حکومت سے اختلافات کے باوجود ہم نے اے پی سی میں شرکت کی، نیشنل ایکشن پلان پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ حکومت دو سالوں میں فوجی عدالتوں کی کارکردگی سے آگاہ کرے۔ خورشید شاہ نے کہاکہ ہم نے فوجی عدالتوں سے متعلق اپنے موقف سے حکومت کو آگاہ کر دیا ہے۔ حکومت سے کہا ہے کہ 17 جنوری کے اجلاس میں فوجی عدالتوں کی 2 سالہ کار کر د گی اور نیشنل ایکشن پلان پر پیشرفت سے متعلق بریفنگ دے ۔ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ کا کہنا تھا کہ ملٹری کورٹس کے معاملے پر پہلے بھی ووٹ نہیں دیا، ا ٓئندہ بھی ووٹ نہیںدینگے۔ اجلاس میں فوجی عدالتوں کے دوبارہ قیام پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا۔ تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت سے ملٹری کورٹس کارکردگی پر بریفنگ کیلئے کہا ہے۔ نیوز ایجنسیوںکے مطابق خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ روزاول سے ہمارا موقف ہے کہ ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی ضرورت نہیں لیکن حکومت کا مقصد ہے کہ ادارے بناتے جا اورکرپشن بڑھاتے جا، اپوزیشن نے حکمت عملی تیارکرلی ہے تاہم حکومت کا موقف بھی سنا جائے گا اور اگر فوجی عدالتوں کے قیام میں توسیع کی بات ہوئی تو ہم اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ حکومت پہلے اپنے ارکان کو فوجی عدالتوں کی توسیع پرمتفق کرے، پھر اپنا موقف دے ،ہم حکومت کا موقف سننے کے بعد اپنی رائے دینگے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں فوجی عدالتوں سے متعلق متفقہ لائحہ عمل اپنائیں، اسی حوالے سے پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور ق لیگ سے رابطہ کیا گیا ہے، ایم کیوایم سے ابھی بات نہیں ہوئی، جبکہ نوید قمرکا کہنا تھا کہ پہلے بھی فوجی عدالتوں کی مجبوری میں حمایت کی تھی، اس بارنہیں کرینگے۔حکومت نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کیا ، لگتا ہے حکومت ہمارا کندھا استعمال کرکے فوجی عدالتوں کو مسترد کرنا چاہتی ہے۔
تازہ ترین