• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہی انٹیگریشن کا مسئلہ زاویہ … مشتاق مشرقی

برطانوی انٹیگریشن چیف ڈیم لوئیز کیسی ایم پی نے ایسٹرن یورپین امیگرنٹس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اپنے نئے وطن برطانیہ کی تہذیب سے آگاہی حاصل کرکے یہاں پر انٹیگریٹ ہونے کی کوشش کرنی چاہئے ہائوس آف کامنز کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں انٹیگریشن کے حوالے سے اپنے ریویو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسٹرن یورپین امیگرنٹس کے بارے میں شکایت ملی ہیں کہ یہ لوگ کسی دکان، بس سٹاپ یا آفس میں جب جاتے ہیں تو اپنی باری کا انتظار کرنےوالوں کی قطار میں کھڑا ہونے کی بجائے سیدھے کائونٹر پر چلے جاتے ہیں اس کے علاوہ انہیں شائستگی سے بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے۔ ڈیم لوئیز کیسی نے یہ بھی کہا کہ برطانوی اقدار کو اپنائے بغیر اس ملک میں انٹیگریشن ناممکن ہے کیونکہ جو لوگ باہر سےیہاں سیٹل ہوتے ہیں ان پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس ملک کے عوام کے ساتھ ضم ہونے کی کوشش کریں کیونکہ الگ تھلگ رہنے سے مختلف مسائل جنم لیتے ہیں 1960کی دہائی میں جب سائوتھ ایشیائی تارکین برطانیہ میں آباد ہوئے تو بھارتی اور ویسٹ انڈین امیگرنٹس سمیت آسانی کے ساتھ اس معاشرے میں ضم ہوتے چلے گئے لیکن پاکستانیوں کا مذہب اور طرز معاشرت چونکہ مختلف تھا اس لئے انہیں برطانیہ میں انٹیگریٹ ہونے میں ابھی تک مشکلات پیش آرہی ہیں جب تک پاکستانی امیگرنٹس مردوں نے اپنی فیملیز کو برطانیہ میں سیٹل نہیں کیا تھا اس وقت تک انہوں نے انٹیگریشن کا نام تک نہیںسنا تھا 1980اور1990کی دہائی میں پاکستانیوں نے اپنے خاندان کے افراد کو برطانیہ بلانا شروع کیا تو ساتھ ہی انہیں اپنی معاشرتی اور مذہبی اقدار کو بچانے کی بھی فکر لاحق ہوگئی۔ اس سے پہلے سنگل پاکستانی مرد دن رات کام کرکے ایک دن فلم دیکھ کر اپنی تفریح کا سامان کرتے تھے جب ان کے بچے یہاں آگئے یا پیدا ہوئے تو انہیں اپنے مذہب کا خیال آگیا جب تک بنگلہ دیش نہیں بنا تھا اس وقت بنگالی بھی پاکستانی تھے ان کے اندر بھی وہی Ghetto Mentality یعنی اپنی اپنی کمیونٹی کے ساتھ الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے ہم لوگ برطانوی عوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستانی، بنگالی اور کشمیری تارکین وطن چونکہ دیہاتی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ان کیلئے فرسٹ ورلڈ کے امیر ملک میں ایڈجسٹ ہونا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ اب پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی تیسری جنریشن پروان چڑھ رہی ہے لیکن برطانوی معاشرے سے ان کی دوری شروع میں آنے والے تارکین وطن سے بھی زیادہ ہوگئی ہے جس کے ذمہ دار وہی پرانے لوگ ہیں جنہوں نے خود تو برطانیہ میں عیاشیاں کی تھیں لیکن اپنے بچوں کو برطانوی معاشرے سےالگ تھلگ رکھنے کی کوششیں کرتے رہے، اب اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تیسری جنریشن کے پاکستانی بچے مذہبی انتہاپسندی کے ہتھے چڑھ رہے ہیں ایسٹرن یورپ سے آنے والے تارکین کی اکثریت بھی اپنے ممالک کے بڑے شہروں سے نہیں آئی بلکہ دور درازپہاڑی علاقوں سے آتے ہیں جو واجبی سی تعلیم رکھتے ہیں لیکن سکلڈ لیبر ہونے کی وجہ سے انہیں برطانیہ آنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی لیکن اپنے دیہی یا پہاڑی طرز معاشرت کی وجہ سے ان میں اخلاقی معیارات وہ نہیں ہیں جو ایسٹرن یورپ کے تہذیب یافتہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ڈیم لوئیز کیسی نے ایسٹرن یورپی تنظیموں سے بھی رابطے کئے ہیں اور خود بھی کئی امیگرنٹس سے ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں بتایا گیا کہ امیگرنٹس کو برطانیہ آنے سے پہلے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ بینک، دفتر یا دکان پر جاکر ایک قطار میں کھڑا ہونا ضروری ہےاور نہ ہی کسی نے یہ بتایا کہ برطانوی عوام بہت مہذب ہیں ان کے ساتھ تمیز اور تہذیب کے دائرے میں رہ کر بات چیت کرنی چاہئے۔ میرے لئے تو یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ ایسٹرن یورپ سے آنے والوں کو اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی سے بات چیت کرتے ہوئے اکھڑپن یا بدمعاشی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ آج کل جوکچھ ہورہا ہے اور جس طرح کے لوگ آرہے ہیں اسکی ذمہ دار حکومت برطانیہ ہے اگر کوئی ملک اپنے بارڈرز کو اوپن کردے تو پھر کون چیک کرے گا کہ جو یہاں پر آرہا ہے وہ اس کا حق دار بھی ہے کہ نہیں۔ برطانیہ کی نسل پرست تنظیموں نے حکومت پر تنقید کی ہے کہ اس نے بڑی تعداد میں جرائم پیشہ افراد کی بیک گرائونڈ بھی چیک نہیں کی جو یہاں آکر مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوگئے ہیں۔ برطانیہ میں تارکین وطن کی آمد کے بعد جرائم میں اضافے کی شرح تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ جو بھی یورپی شہری برطانیہ آنا چاہے اس کی تعلیم یا ہنرمندی کا ٹیسٹ ہو اور پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس ملک میں ایسے امیگرنٹ کیلئے جاب موجود ہے یا نہیں۔ ایسٹرن یورپ سے جو لوگ آچکے ہیں انہیں بریگزٹ Brixitکے باوجود یہاں سے نکالنا مشکل ہوگا یہاں تو غیرقانونی تارکین وطن اسائلم کلیم کرکے 10برس گزار لیں تو انہیں نکالنے میں دقت ہوتی ہے۔ برطانیہ میں امیگریشن کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہوگا اسکی وجہ یہ ہے کہ سیاسی مصلحتیں اڑے آتی رہتی ہیں جن کی وجہ سے کبھی بڑی سکیل پر غیرقانونی تارکین وطن کو ایمنسٹی نہیں دی گئی جسطرح امریکہ میں ہوتا رہا ہے اگر غیرقانونی تارکین کو عام معافی دے دی جائے تو کئی لاکھ روپوش امیگرنٹس برطانوی معاشرے میں فعال کردار ادا کرسکتے ہیں اور یورپ سے مزید امیگرنٹس لانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ باقی رہا انٹیگریشن کا مسئلہ تو یہ بھی جوں کا توں رہے گا کیونکہ پاکستانیوں اور مسلمانوں کو یہی فکر رہے گی کہ ان کی نئی نسل کہیں مغربی تہذیب میں ضم نہ ہوجائے یہاں پر رہنے والے پاکستانیوں کو اپنے ملک میں بھی جاکر دیکھنا چاہئے کہ کس طرح بڑے شہروں میں نئی نسل گل کھلا رہی ہے۔ روپے پیسے کی ریل پیل سے وہ اپنا آپ دکھانے کیلئے مغربی طرز زندگی اپنا رہے ہیں۔ امریکی اور یورپی فیشن ٹرینڈز ان سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں وہ بھی اس گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں جو تبدیلی یہاں آتی ہے وہی تبدیلی Real Timeمیں وہاں بھی آجاتی ہے۔ پاکستانی یا مڈل ایسٹ کے ممالک ہزاربند باندھیں تبدیلیوں کو روکنا تقریباً ناممکن ہے۔ برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کو اپنےغیرحقیقی خوف سے نجات حاصل کرلینی چاہئے کہ انکی نئی نسل گوروں کی طرح ہوجائے گی ہم لوگوں کو اپنے بچوں کو اچھے اور برے کی تمیز سکھانی چاہئے تاکہ وہ بڑے ہوکر صحیح فیصلے کرسکیں انٹیگریشن کا راستہ روکنا بہت مشکل ہے آج نہیں تو سو سال بعد انٹیگریشن ہوکر رہے گی۔




.
تازہ ترین