• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانی کی خراب صورتحال۔فوری توجہ درکار ہے ... خصوصی مراسلہ…ایم فاروق

وفاقی وزیرپانی وبجلی خواجہ آصف نے جیو کے مارننگ شو میں کہا کہ پانی کے ذخائر سوکھ رہے ہیں اور بہت خطرنا ک صورتحال ہے تربیلا میں 65ایکڑ فٹ پانی جبکہ منگلا میں 68ہے۔ خواجہ صاحب کے اس بیان نے آبی امور کے ماہر جناب شمس الملک کی ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں کہی بات یادلادی۔ کہ پھر تم حکومت میں کس لئے ہو کیا حکومت صرف نوٹ چھاپنے کے لئے کرتے ہو۔ ہمارے پا س پانی حاصل کرنے کے تین بڑے ذرائع ہیں۔ دریا، بارش اور زیرزمین پانی۔دریائوں کا پانی ڈیم بنا کر ذخیرہ کیا جاتا ہے تاکہ بوقت ضرورت استعمال کیا جاسکے۔ ڈیم ہم نے بنائے نہیں چاہے اسکی وجہ بھارت کا دبائو ہے(جیسا کہ جناب شمس الملک نے فرمایا بھارت اب تک ساڑھے چار ہزار ڈیم بناچکا ہے اور ہم نے اب تک صرف تین بنائے ہیں) یا پھر ہماری نااہلی ہو۔بارش ہونے کے اگلے کئی مہینوں تک امکان نہیں کیونکہ محکمہ موسمیات کے مطابق کلائمیٹ چینج کے عمل کے تحت خشک سالی کے دور میں ہم داخل ہو چکے ہیں۔اب رہ گیا زیرزمین پانی تو وہ ہم اپنی غفلت، عدم توجہی یا عدم شعور کے باعث د ھڑادھڑ ضائع کررہے ہیں۔ خواجہ آصف صاحب نے فرمایا کہ شہروں کی حد تک اس کا حل میٹرنگ سسٹم ہے، بالکل بجا ہے مگر اس بھی بڑھ کر کچھ اور بھی معاملات ہیں جیسا کہ گھروں میں اور خاص طور پر سروس اسٹیشنز پر گاڑیوں کی دھلائی پر پانی کا بے دریغ استعمال، جو کہ سراسر پانی کا ضیاع ہے اور خاص طور پرایسے ملک اور ایسی صورتحال میں جب ہمیں پانی کی شدید قلت کا سامناہے اس پر فوری طور پر پابندی لگادینا چاہئے۔ دوسرا معاملہ اہم شاہرائووں کی دھلائی اور پارکوں کو پانی دینا ہے۔درختوں اور پودوں کو بوقت ضرورت، پانی ضرور دیں مگر گھاس کو سیراب نہ کریں یا رات کے وقت دیں تاکہ پانی کم سے کم بخارات بن کر اڑے۔ ویسے جب عقل ہی استعمال نہ کرنا ہو تو پھر اس طرح کے کام کئے جاسکتے ہیں۔ باقی رہ گئی Sprinkler Technology تو اس سے ہم ابھی کوسوں دور ہیں۔ گوگل ذرائع کے مطابق ایک گاڑی کو صرف دس منٹ تک دھونے میں تقریباً 100گیلن (380لیٹر) پانی ضائع ہوتاہے اور یاد رہے کہ ایک عام انسان روزانہ تقریباً80گیلن(304لیٹر)پانی، کھانے پکانے، نہانے، کپڑے دھونے، ٹائلٹ وغیرہ کیلئے استعمال کرتا ہے۔ لیکن ہمارے گلی محلوں میں جس طرح روزانہ گاڑیاں دھوئی جاتی ہیں اوراس کے بعد گھروں کے ریمپ اور پھر سڑک دھوئی جاتی ہے اس سے لگتا نہیں ہے کہ ہمیں پانی کی قلت کا احساس ہے۔ روزانہ گاڑی دھونا اگر اتنا ہی ضروری ہے تو اسکے لئے ایسے طریقے اختیا رکئے جاسکتے ہیں کہ جس سے پانی کا کم سے کم ضیاع ہو، جیسا کہ Towel Mops ایک بالٹی پانی میں تولیہ کا ٹکڑا بھگو کر اس سے گاڑی صاف کرلی جائے اور اگر اس سے پہلے گاڑی کو جھاڑ لیا جائے تو مزید صفائی ہو سکتی ہے اور پانی بھی کم استعمال ہوگا۔اسکے علاوہ گوگل سے سرچ کرکے مزید طریقے اختیا ر کئے جاسکتے ہیں جوکہ ساری مہذب دنیا میں رائج ہیں۔ مگر اس کے لئے مثبت سوچ، اپروچ اور احساس ذمہ داری چاہئے نہ کہ خواجہ آصف کی طرح صرف بیان بازی پر اکتفا کر لیا جائے۔مگر بات پھر وہی جناب شمس الملک کی کہ حکمراں کے دلوں میں رحم نہیں ہوتا، ویسے بھی بہت سے دوسرے مسائل کی طرح یہ مسئلہ بھی عوام کاہے۔ملائیشیا، دبئی، جدہ، قطر، پاناما، لندن میں پانی کی قلت نہیں اور غم ہیں جو اور طریقوں سے غلط کئے جاسکتے ہیں۔جبکہ ہماری زمینی حقیقت یہ ہے کہ زیرزمین پانی جو کہ اب ہمارا، واحدقابل بھروسہ ذریعہ رہ گیا، کو بہت احتیاط کے ساتھ استعمال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں بھی بڑی تیزی سے کمی آرہی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف بیس سال پہلے تک لاہور شہر میں زیرزمین پانی20سے 40فٹ گہرائی میں دستیاب تھا اب وہ 800 فٹ سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔

.
تازہ ترین