• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی بینک نے پاکستان کی پیداواری ترقی کا تخمینہ 4.5 سے بڑھاکر 5.2 فیصد کردیا، اگلے سال بھی پیداوار زیادہ ہوگی

کراچی(طارق احمد سعیدی)عالمی بینک نے اگلے تین سال میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح کوتوقعات سے زیادہ رہنے کاامکان ظاہر کیا ہے۔ان کے پہلے تخمینوں پر نظرثانی سے بڑے پیمانے پر سرحد پار انفرا اسٹرکچرسرمایہ کاری، اصلاحات اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی کے مقاصد حاصل کرلیے گئے ہیں۔ واشنگٹن میں مقیم ایک قرض دہندہ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ’’اس سرگرمی میں معمولی اضافے سے حوصلہ افزائی ہوئی تھی، جو کہ اشیاء کی کم قیمتوں، انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری میں اضافہ اور اصلاحات کے مجموعے سے مقامی طلب بڑھی ہے اور کاروباری ماحول بہتر ہوا ہے۔‘‘ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ2017ء میں جنوبی ایشیاء کی دوسری بڑی معیشت کی جی ڈی پی میں اضافہ5.2؍ فیصد ہوگا۔ اس نے مزید کہا تھا کہ ترقی کی یہ شرح2018ء میں 5.5؍ فیصد اور 2019ء میں 5.8؍ فیصد تک جائے گی، جو کہ زراعت، انفرااسٹرکچر، توانائی اور بیرونی مانگ میں اضافے سے ظاہر ہورہا ہے۔ گزشتہ جون میں، ورلڈ بینک نے پیش گوئی کی تھی کہ 2017ء میںشرح نمو 4.5؍ فیصد  اور 2018ء میں 4.8؍ فیصد ہوگی۔ ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ مسلسل سیکورٹی ، سیاسی کشیدگی اور بڑھتی ہوئی قرض کی سطح مقامی نوعیت کی ہیں، جب کہ تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور اہم برآمدی منڈیوں میں طویل سست روی بادی النظر میں بیرونی خطرات ہیں۔اس نے مشورہ دیا ہے کہ ترقی کے لیے نرم کلیدی پالیسی اپنائی جائے، سہولت رساں مانیٹری پالیسی کا اقدام سے اس سرگرمی میں معاون ہونے کی امید ہے۔ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ ’’گلوبل اکنامک پروسپیکٹس، ویک انویسٹمنٹ ا ن انسر ٹین ٹائمز میں کہا ہے کہ کئی ممالک میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے ، ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ تاہم سرمایہ کاری میں یہ اضافہ آدھے سے زیادہ اجناس کی درآمد کرنے والے ممالک میں طویل مدتی اوسط سے کم رہا ہے۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) توسیع کردہ فنڈ کی سہولت کے پروگرام کے سبب، جس کا مقصد اصلاحات میں معاونت کرنا، مالیاتی اور بیرونی شعبہ جات کے خطرات کو کم کرنا ، صارفین اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہے۔پاکستان نے آئی ایم ایف پروگرام اور ورلڈ بینک کی ترقیاتی پالیسی کے تحت بہت سی اصلاحات کی ہیں ، جس سے بہت سے چیلنجوں سے نپٹا گیا ہے۔مثلاً توانائی کے مسائل کم کرنے کی اصلاحات، ٹیکس پالیسی اور انتظامی اصلاحات تاکہ ریونیو میں اضافہ ہو اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خودمختاری کو مضبوط بنایا گیا تاکہ خطرات میں کمی آئے۔ ورلڈ بینک کے مطابق، پاک چین اقتصادی راہد ار ی کا پروجیکٹ متوسط دورانیہ کے لیے سرمایہ کاری میں اضافہ کرے گا اور آمد و رفت کے مسائل اور لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا سبب ہوگا۔اسٹیٹ بینک نے 2016 کے لیے شرح نمو کا تخمینہ 4.7 فیصد لگایا تھا۔ورلڈ بینک کے مطابق،  تجارتی وزن کے اصل تبادلہ کی شرح کو خوش آئند قرار دیا ہے، جس نے پاکستان اور بھار ت میں برآمدی مسابقت کاری کمزور کی ہے۔توانائی کی برآمدات میں کمی اور کرنٹ اکائونٹ بیلنس میں ترسیلات زر کی کمی کے سبب منفی اثرات میں کمی آئی ہے، جو سوائے بنگلا دیش کے زیادہ تر خسارے میں چل رہے تھے۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں افراط زر مالیاتی رکاوٹوں کے سبب تھا۔ٹھوس بجٹ ہونے کے سبب  پاکستان کا مالیاتی خسارہ2016 میں 4.6 فیصد ہوگیا۔توانائی کے شعبے میں دی گئی سبسڈیز میں کمی اور ایکسائز ٹیکسوں میں اضافے کے سبب بھارت، پاکستان اور سری لنکا میںاخراجات کے دبائو میں کمی آئی۔تاہم ، عام انتخابات سے قبل یہ پالیسی مالیاتی خسارے میں اضافہ کرسکتی ہے۔ورلڈ بینک کا کہنا ہے کہ حکومتی ملکیتی اداروں کی پرائیویٹائزیشن کا عمل پاکستان اور بھارت میں امید سے کم رہا۔ترقی کے اعتبار سے خطے میں کمزور ترین ملک افغانستان تھا۔ورلڈ بینک کے مطابق، اس کی شرح نمو 2016 میں 1.2 فیصد تھی۔جس کی بنیادی وجہ مقامی طلب میں کمی، سیکوریٹی کی بگڑتی صورتحال، خشک سالی جس نے ذراعت کو متاثر کیا۔اس کے علاوہ پاکستان سے واپس آنے والے مہاجرین  نے بھی مالی دبائو میں اضافہ کیا، جس کے سبب بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری محدود ہوئی۔
تازہ ترین