• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف نے مریم کے نام پر فلیٹس خریدے، پی ٹی آئی، طے ہونا باقی ہے کہ جائیدادیں کب خریدی گئیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ/جنگ نیوز)سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ یہ طے ہونا باقی ہے کہ جائیدادیں کب خریدی گئیں، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کسی کی ساری زندگی کی جائزہ نہیں لے سکتے،سماعت کے دوران شیخ رشید کے بعض دلائل پر قہقہے لگنے پر عدالت نے ناراضی کا اظہار کیا، جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے بتایا گیا کہ نواز شریف نے مریم کے نام پر فلیٹس خریدے،درخواست گزار عمران خان کے وکیل نعیم بخاری اور درخواست گزار شیخ رشید احمد نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ہیں جبکہ مسول علیہ و وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل کا آغاز کر دیا ہے، کیس کی مزید سماعت آج ہوگی،تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں ’’پاناما پیپرز لیکس‘‘ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کسی کی ساری زندگی کی جانچ پڑتال نہیں کرسکتی ہے، ہمارا مرکز نگاہ لندن فلیٹس ہیں، عدالت میں بڑے چھوٹے کی بات نہ کی جائے ہماری نظر میں سب برابر ہیں، سیاسی مخالفین تقسیم ہوں تو انصاف وہی لگتا ہے جو اپنے حق میں ہو، مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو ناانصافی لگتا ہے لیکن انصاف وہ ہے جو آئین کے مطابق ہو، پی ٹی آئی کو لندن فلیٹس تک محدود رہنے کا کہا تھا، صادق و امین کا ایشو اس عدالت میں مختلف مقدمات میں سامنے آیا اور لوگوں کو نااہل قرار دیا گیا تھا، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ لندن فلیٹس کب خریدے گئے؟ شریف فیملی کے مطابق انہیں فلیٹس 2006 میں منتقل ہوئے، درخواست گزار کے بقول شریف خاندان نے فلیٹس 1993سے1996 میں خریدے تھے، جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے بدھ کو کیس کی سماعت کی تو  نعیم بخاری نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ شریف فیملی نے آف شور کمپنیو ں کے نام پر لندن فلیٹس حاصل کیے جن کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے اس لئے یہ بیئرر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا، جس کے پاس ہو، آف شور کمپنی اس کی ہوگی اور قانون کے مطابق بیئرر سرٹیفکیٹ سے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے اگر یہ آف شور کمپنیاں قطریوں کی تھیں تو شریف فیملی کو ان کے سرٹیفکیٹ بھی دینا ہوں گے جس سے ثابت ہوسکے کہ یہ دونوں کمپنیاں قطریوں کے پاس تھیں، انہو ں نے مزید کہا کہ آف شور کمپنیاں مریم نواز کے نام پر ہیں اور ان کے پاس تو اس کو لینے کے پیسے ہی نہیں تھے اور وزیر اعظم نے اپنی بیٹی کو کمپنیوں کے لئے رقم دی، نواز شریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیئے، حسین نواز نے بھی مریم نواز کو رقم دی ہی، جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ حسین نواز نے بھی مریم نواز کو رقوم دی ہیں، اگر آپ کی تعریف مان لیں تو کیا مریم، حسین نواز کی بھی زیر کفالت ہیں؟ نعیم بخاری نے عدالت کو کہا کہ ہر شخص چاہتا ہے کہ شادی کے بعد اس کی بیٹی کی کفالت شوہر کرے مگر ریکارڈ کے مطابق کیپٹن صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی اور مریم صفدر اپنے والد نواز شریف کے ساتھ رہ رہی ہیں اور ان کی زیر کفالت تھیں اور اب بھی ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ ابھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے کیونکہ شریف فیملی کے بقول انہیں فلیٹ2006 میں منتقل ہوئے اور آپ کے بقول شریف خاندان نے فلیٹ1993 اور1996 میں خریدے۔ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ تمام شواہد اور دستاویزات پیش کردی ہیں، مریم نواز کے پاس آف شور کمپنیوں کے لئے پیسہ نہیں تھا، مریم کو رقم نوازشریف نے دی۔ شریف خاندان کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا ہر کام قانون کے مطابق ہوا۔ عدالت سے وزیر اعظم کی نااہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ امید ہے سپریم کورٹ کیس کا فیصلہ جلد سنائے گی۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ نعیم بخاری کے دلائل کی مکمل تائید کرتے ہیں اور اگر کوئی کسی کے زیر سایہ ہے تو وہ زیرِکفالت کہلائے گا، وکالت کا تجربہ نہیں، غلطی ہو تو معافی چاہتا ہوں، میرا کوئی بچہ یا فیملی نہیں لیکن یہ قوم ہی میری فیملی ہے، شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے جبکہ قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے، عدالت میں قطری خط کو رضیہ بٹ کے ناول سے تشبیہ دینے پر قہقہے لگے تو جسٹس شیخ عظمت نے برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں، ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔ شیخ رشید نے کہا کہ ایک طرف مریم نواز کہتی ہیں کہ ان کی آمدن نہیں دوسری طرف وہ امیر ترین خاتون ہیں، عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لئے آتے ہیں اور یہ مقدمہ20 کروڑ عوام کا ہے۔ عدالت کو مخاطب کرکے شیخ رشید نے کہا کہ آپ نے انصاف فراہم کرنے کا حلف لیا ہے اور عوام کی نظریں عدالت پر ہیں،19 سال کی عمر میں ہمارے بچوں کا شناختی کارڈ نہیں بنتا، شریف خاندان کے بچے ارب پتی بن جاتے ہیں، شیخ رشید نے وزیر اعظم کو عدالت میں طلب کرنے کی استدعا کی، ان کا کہنا تھا کہ طارق شفیع نے بیان حلفی میں کہا بارہ ملین درہم لے کر دے دیئے۔ لیکن  یہ نہیں بتایا کہ کس کو دیئے گئے،1980 میں دبئی میں 31 بینک تھے کس کے ذریعے رقم منتقل ہوئی شریف خاندان بتائے کہ 1980 سے 2006 تک پیسے کہاں رہے، یہ کہنا درست نہیں کہ دبئی میں کاروبار گدھوں پر ہوتا ہے۔ جدہ مل میں کام کرنے والے کسی مسلمان کا نام شریف خاندان بتا دے، شریف خاندان شروع سے ہی حقائق چھپاتا رہا ہے۔ برطانیہ میں کوئی الزام لگ جائے تو ساری جائیداد بک جانے پر بھی جان نہیں چھوٹتی، مریم صفدر ہی لندن جائیدادوں کی حقیقی وارث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستری اور مزدور طبقے نے ملک کو نقصان نہیں پہنچایا۔ طاقتور لوگوں نے ہی ملک کی جڑیں کاٹیں۔ جسٹس شیخ عظمت نے شیخ رشیدسے کہا کہ آپ صادق و امین کے حوالے سے جس کیس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ جعلی ڈگری سے متعلق ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ صادق و امین کا ایشو اس عدالت میں مختلف مقدمات میں آیا۔کچھ مقدمات میں شہادتیں ریکارڈ بھی ہوئیں۔ لیکن یہ مقدمہ 184/3 کے تحت سن رہے ہیں۔ یہ کیس باقی مقدمات سے مختلف ہے۔ شیخ رشید نے مزید کہا کہ نواز شریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں ، قطری شہزادہ مین آف دی میچ ہے لیکن قطری خط کی حیثیت ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں کیونکہ یہ خط سنی سنائی باتوں پر مبنی ہے اور سنی سنائی بات کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ قانون کے مطابق زبانی ثبوت براہ راست ہونا چاہیے۔ شیخ رشید نے کہا کہ قطری نوازشریف کو انتخابات میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں اور اب بھی نواز شریف کو مدد دی گئی ہے، شیخ رشید نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کا حوالہ دیا تو جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ حضرت عمر نے نہیں کہا تھا کہ بار ثبوت الزام لگانے والے پر ہے۔شیخ رشید نے کہا کہ لیکن مجھ کو اللہ سے امید ہے کہ کرپشن کا تابوت سپریم کورٹ سے نکلے گا ، اسحاق ڈار کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ اسحاق ڈار پہلے ہی مقدمہ میں فریق ہیں۔شیخ رشید نے کہا کہ قطری شہزادہ نواز شریف کے لئے ریسکیو 1122ہے، شیخ رشید نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیس کے پیچھے اصل چہرہ سیف الرحمن کا ہے۔ شیخ رشیدنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فروری 2006کو مریم نواز نے ٹرسٹ ڈیڈ پر لندن میں دستخط کیے۔ ڈیڈ پر بطور گواہ کیپٹن صفدر کے دستخط ہیں۔ حسن نواز نے 4 فروری 2006 کو ڈیڈ پر دستخط کیے۔ دوسرے گواہ وقار احمد کے دستخط میں فرق ہے۔ یقین سے کہتا ہوں نوٹری کے سامنے کسی نے دستخط نہیں کیے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی سفارتخانے سے تصدیق نہیں ہوئی۔جس پر شیخ رشید نے کہا کہ ایک فرد لندن دوسرا جدہ میں ہو تو تصدیق کیسے ہو سکتی ہے؟ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ لگتا ہے کومبر گروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ غلطی سے جمع کرائی گئیں۔نیلسن اور نیسکول والی ٹرسٹ ڈیڈ بعد میں جمع کرائی گئی، جس ٹرسٹ ڈیڈ کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ نیلسن اور نیسکول کی نہیں ہے۔جسٹس عظمت نے سوال کیا کہ کیا پنڈی میں کوئی جائیداد بغیر رجسٹری بیچی جا سکتی ہے؟ شیخ رشید نے کہا کہ پنڈی میں ایک سائیکل بھی نہیں بکتی جب تک شہادتی نہ ہو۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ اگر دونوں دستخط کرنے والے ٹرسٹ ڈیڈ کو تسلیم کریں تو پھر کیا صورتحال ہو گی؟ شیخ رشید نے کہا کہ میرا ایمان ہے آپ کو دستاویزات کی حقیقت کا علم ہے۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ ہماری معاونت کے لیے آئے ہیں، وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وقت کم ہے عدالت چاہے تو کل دلائل شروع کر سکتا ہوں، جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آج آپ وارم اپ کر لیں، مخدوم علی خان نے کہا کہ خود کو صرف وزیر اعظم تک محدود رکھوں گا۔پی ٹی آئی نے میگا کرپشن کیسز کی تحقیقات کی بھی استدعا کی،میگا کرپشن کیسز سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔ پی ٹی آئی کے دلائل میں ای سی ایل کا ذکر کہیں نہیں کیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ جس استدعا پر زور نہ دیا جائے وہ خود ہی ختم ہو جاتی ہے اور استدعا ختم ہونے کے حوالے سے قوانین موجود ہیں۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ پی ٹی آئی کو لندن فلیٹس تک محدود رہنے کا کہا تھا۔ لیکن ہم کسی کی پوری زندگی کی اسکروٹنی نہیں کر سکتے۔آپ کیس کا حصہ تاخیر سے بنے اس لیے شاید آپ کو علم نہیں ہوا۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ تمام ایشوز پر عدالت کی معاونت کروں گا۔عدالت کا فوکس پاناما لیکس پر ہے، میں سات روز سے دلائل سن رہا ہوں اور اب تمام حقائق سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں،جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ وہ عمران خان اور شیخ رشید کی درخواستوں کی تائید کرتے ہیں۔ لیکن ہم چاہتے ہیں کہ پانامالیکس معاملہ میں ملوث تمام افراد کے خلاف کارروائی ہو۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آپ نے پاناما لیکس میں نام آنے والوں کو فریق ہی نہیں بنایا۔جس پر فاضل وکیل کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ کمیشن بنے اورسب سے تحقیقات ہوں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے قرار دیا تھا کہ ضرورت محسوس ہوئی تو کمیشن بنائیں گے تاہم سراج الحق کی درخواست ضرور سنیں گے۔توفیق آصف نے کہا کہ نواز شریف کو طلب کرنے کی درخواست دی ہے۔جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے سوال اٹھایا کہ نواز شریف آپ کی درخوا ست میں فریق ہی نہیں تو کیسے بلائیں، توفیق آصف صاحب بات کریں تنگ نہ کریں۔توفیق آصف نے کہا عدالت چاہے تو درخواست میں ترمیم کر سکتے ہیں۔جسٹس گلزار احمد کاکہنا تھا کہ ترمیم کے لیے آپ کو درخوا ست واپس لینا ہو گی۔جماعت اسلامی کے وکیل نے موجودہ درخواست وا پس نہ لینے اور نئی درخواست جمع کرانے کی استدعاکی تو جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ نئی درخواست دائر کرنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں ہے،کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کر دی گئی، آج بھی وزیر اعظم کے وکیل مخدو م علی خان ہی دلائل دیں گے۔
تازہ ترین