• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوتھ کانفرنس جامع مسجد علیؓ برمنگھم تحریر:قاری تصورالحق مدنی…برمنگھم

برطانیہ، امریکہ، روس، چین اور یورپی ممالک سمیت تمام غیر مسلم ملکوں میں بسنے والے بڑی عمر کے مسلمانوں کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ پریشانی یہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی ایمانی کمزوریوں کے باعث مختلف غلط کاموں میں ملوث ہوجائیں، مگر اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ وہ اپنے دین، ایمان کو ترک کردیں گے۔ جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا، امانت میں خیانت کا مرتکب ہونا، وعدوں کی پاسداری نہ کرنا، اپنے ذمہ کے کاموں میں دیانتداری نہ اختیار کرنا گویا ان مذکور حرکتوں سمیت دیگر خرابیوں کا مرتکب ہونا تو ممکن ہے لیکن اپنے اپنے آبائی ملکوں میں ایمان اور دین کے سلسلہ میں ملنے والی تربیت کے نتیجہ میں ایمان سے علیحدگی اور دوری نہیں ہوسکتی۔ اب غیر مسلم ممالک میں رہنے والے بڑوں کی اولین اور آساسی ڈیوٹی ہے کہ وہ اپنی نسلوں کے حوالہ سے صرف یہ ذمہ داری نہ سمجھیں کہ ان کے روشن مستقبل کے لئے مکان، کار اور بینک بیلنس کا بندوبست کریں، بلکہ ان کی ذمہ داریوں میں سے مذکور چیزوں کا اہتمام فقط ایک ذمہ داری ہے، مگر ان کی پیدائش سے لے کر تمام زندگی تک مکمل اصلاح کرنا بھی بڑوں کی ہی کڑی ذمہ داری ہے۔ ہماری نئی نسل کی ایک بہت بڑی تعداد جو غیر مسلم ممالک میں آباد ہے وہ دور جدید کے تقاضوں کی حامل تعلیم سے کوسوں دور ہے۔ سکولوں کی لازمی تعلیم کے دورانیہ کی تکمیل کا نام تعلیم نہیں، جن ممالک میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع میسر ہوں ان ممالک میں بہتر تعلیم سے محرومی کوئی معمولی نقصان نہیں۔ لہٰذا نقصان سے محفوظ رکھنے کا کام بھی بالآخر بڑوں ہی کو کرنا ہے۔ برسوں پہلے روس نے افغانستان میں مداخلت کی، چنانچہ روسی جارحیت کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں نے مقابلہ کے لئے صف بندی کی اور اس صف بندی میں امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک کی مکمل سرپرستی، رضامندی اور عملی مدد حاصل تھی۔ تاہم روس کی شکست کے بعد روس کے مدمقابل یہ قوت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قابو میں نہ رہی اور پھر یہ قوت رفتہ رفتہ پاکستان سمیت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے علاوہ پوری دنیا کے لئے وبال بن گئی۔ آج اسی قوت کے منفی مظاہرے برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کے علاوہ متعدد مسلمان ملکوں میں دیکھے جارہے ہیں۔ لیبیا، عراق، شام اور پاکستان تو وسیع پیمانے پر بحران کا شکار ہیں۔ جبکہ سعودی عرب، ترکی بھی شدید کرب سے گزر رہے ہیں۔ افسوسناک معاملہ یہ ہے کہ منفی سرگرمیوں یعنی دہشت گردی کے واقعات میں غیر ممالک میں آباد مسلمانوں کی اولادوں کی شرکت ہے۔ اچھی تعلیم کے بعد نسلوں کو منفی سرگرمیوں سے بچانا اور ان کی سرگرمیوں کی نگرانی کرنا بھی بڑوں ہی کی ذمہ داری ہے۔ پہلے پہل لوگوں کا خیال یہی تھا کہ دہشت گرد قوتوں کے آلہ کار وہی لوگ بنتے ہیں جو دینی تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں، مگر حالات و واقعات نے ثابت کیا ہے کہ جدید تعلیم سے وابستہ لوگ ان منفی کاموں کی طرف زیادہ متوجہ ہیں۔ دین کی حقیقی تعلیم سے آگاہی نہ رکھنے والے فقط جذبات کی رو میں بہہ کر شاٹ کٹ سے کامیابی کے خواہاں ہوتے ہیں۔ والدین کے بعد مذہبی اور سیاسی لوگ بھی بچوں اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کے ذمہ دار ہیں۔ سیاسی لوگ تو اپنے مفادات کے تحفظ میں سرگرداں رہنے کے باعث قوم کی اصلاح کے فریضہ سے تو غافل ہیں ہی جبکہ والدین کی اکثریت بھی معاشی حالات کو بہتر بنانے کی دوڑ میں صحیح معنوں میں اولادوں کی خیرگیری نہیں کرپائی۔ رہی مذہبی حلقوں کی بات تو وہ وسائل کی کمی کی وجہ سے پورا پورا حق ادا نہیں کر پا رہے۔ تاہم دینی حلقوں کی خدمات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ 14جنوری ہفتہ کے دن مغرب سے عشاء تک جامع مسجد علیؓ اہلسنت و الجماعت آسٹن چرچ روڈ سالٹلے برمنگھم8میں یوتھ کانفرنس کے انعقاد کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں خرابیوں کی نشاندہی کی جائے اور ان باتوں سے روشناس کیا جائے جن کے باعث وہ اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن سکتے ہیں۔ یہ کانفرنس راقم کی سرپرستی میں ہورہی ہے اور تنظیم سازی میں شیخ محمد نجیب، صاحبزادہ حافظ عدیل تصور ایڈووکیٹ، نوید عبدالرحمن اور مولانا عمران الحق پیش پیش ہیں۔ برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ کے معروف نوجوان سکالر شیخ احمد علی مہمان خصوصی ہیں۔ البتہ برمنگھم سے تعلق رکھنے والے مولانا سکندر اور مولانا عمران بھی مدعو ہیں۔ نوجوان بھرپور طور پر شریک ہوں اور مستعفیض ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم نے سال2017ء کی ابتدا ایک بہت مثبت کام سے کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ دیگر شہروں میں بھی ایسی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جائے گا۔ 14جنوری کو ہونے والی یوتھ کانفرنس اگرچہ بنیادی طور پر برمنگھم کے نوجوانوں کے لئے ہے۔ تاہم اگر برطانیہ بھر سے نوجوان شرکت کریں گے تو ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے۔ نوجوان بچیوں کے لیے مکمل پردہ کے ساتھ شرکت کا اہتمام ہے۔ تمام پروگرام انگلش میں ہوگا اور ریفرشمنٹ کا انتظام بھی ہوگا۔ تفصیلات کے لیے مسجد علیؓ کی انتظامیہ سے رجوع کرسکتے ہیں۔ اوائل سال میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنس کافی مثبت اثرات کی حامل ہوگی۔



.
تازہ ترین