• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گزشتہ منگل کے روز پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے آئین کے آرٹیکل 62-63 کے اطلاق کی بات کی تو پھر اُن کے موکل یعنی عمران خان سمیت پارلیمنٹ میں کوئی نہیں بچے گا۔ اس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق ہی شاید اکیلے بچیں گے۔ دوسرے روز کیس کی سماعت کے دوران جسٹس کھوسہ نےاپنے الفاظ واپس لےلیے لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کر دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کا مکمل طورپر اطلاق کیا جانا چاہیے چاہے اس سے ساری پارلیمنٹ خالی ہو جائے۔ خان صاحب نے کہا کہ پارلیمنٹ تو خالی ہو جائے گی لیکن پاکستان بچ جائے گا۔ اس موقع پر عمران خان نے یہ بھی کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62-63 کے اطلاق سے اگر وہ خود بھی نا اہل ہوتے ہیں تو کوئی بات نہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ آرٹیکل 62-63 کے اطلاق سے پارلیمنٹ میں کوئی بچتا ہے کہ نہیں لیکن دکھ اس بات کاہے کہ عدلیہ،پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں، میڈیا سمیت سب جانتے ہیں کہ آئین کی ان شقوںپر عمل درآمد نہیں ہو تا لیکن کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگتی۔ ویسے تو بہت اعتراض کیاجاتاہے کہ چور ڈاکو، شرابی، بدکردار افراد کےلیے بھی پارلیمنٹ کے دروازے کھلے ہیں۔ رونا رویاجاتاہے حکمرانوں کی مبینہ کرپشن کا، جھوٹ فراڈ اور دھوکے کا لیکن آئین میں دی گئی چھننی کو استعمال کرنے کی بات آتی ہے تو سب معترض ہوتے ہیں۔ آئین کہتا ہے ہر ممبر اسمبلی کو صادق اور امین ہونا چاہیے تاکہ پارلیمنٹ میں بیٹھنے والے اور حکمرانی کرنے والے ملک و قوم کے پیسے کو امانت سمجھ کر صحیح طریقہ سے خرچ کریں، کرپشن کی کوئی گنجائش نہ ہو، سچ کی بنیادپر سیاست اور حکومت کی جائے۔ لیکن کیا میڈیا، کیا سیاستدان سب سے زیادہ اسی شق کا مذاق اڑایا جاتاہے۔ کہا جاتاہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ صادق اور امین کون ہے اور کون نہیں۔ اگرچہ آئین میں درج اس شق کو عدلیہ کے فیصلے سے جوڑا گیا ہے لیکن کوئی پوچھے کہ عدلیہ، پارلیمنٹ، سیاستدان اور میڈیا کوئی ایسا میکینزم بنانے سے کیوں گھبراتے ہیں جس سے کم از کم یہ تو تعین ہو کہ اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آنے والےبے ایمان، بدکردار اور جھوٹے تو نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 62-63 کے مطابق کوئی بدکردار شخص پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔ آئین میں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ ایسا شخص جو کبیرہ گناہ کرنے کے حوالے سے جانا جاتا ہو وہ بھی پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ شراب پینے والے، اس کی تشہیر کرنے والے، شراب کا کاروبارچلانے والے نہ صرف اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آتے ہیں بلکہ ایک ـ’’شرابی‘‘ رکن قومی اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل تو اسمبلی اجلاس میں یہ مطالبہ تک کر دیا تھا کہ شراب پر سے پابندی ختم کی جائے۔ جھوٹ کھلے عام بولا جاتاہے، اسمبلی میں کھڑے ہو کر غلط بیانی کی جاتی ہے لیکن ایسا کرنے کو سیاسی بیان اور سیاست کہہ کر درگزر کر دیا جاتا ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والا ہر فرد اپنے کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت یہ حلفیہ بیان دیتا ہے کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریہ کو مانتا ہے اور اس کا تحفظ کرے گا لیکن کتنے ایسے ممبران پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی ہیں جو کھلے عام پاکستان کی اسلامی نظریاتی اساس سے نہ صرف انکار کرتے ہیں بلکہ اس کے خلاف بات کرتے ہیں۔ یہ جھوٹ دھوکہ اور بدیانتی نہیں تو اور کیا ہے۔وعدہ خلافی ہماری سیاست میں عام بات ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں جو اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کرتے، اقتدار میں آتے ہی اُن کو نہ صرف بھول جاتے بلکہ اُن وعدوں کےبرخلاف جاتے ہیں، اس پر بھی اُن کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ عمران خان نے بہت اچھی بات کی کہ پاکستان کو اگر بچانا ہے تو آئین کے آرٹیکل62-63 کا مکمل اطلاق کیا جائے چاہے اس کے نتیجے میں وہ خود بھی نااہل ہو جائیں۔ امید ہے کہ خان صاحب نے یہ بات بھی سیاسی نہیں کی کیوں کہ پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کمیٹی کے اجلاسوں میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے تو آئین کے آرٹیکل 62-63 میں درج اسلامی شقوں کو سرے سے ختم کرنے کی سفارش کی تھی۔ میڈیا میں موجود دیسی لبرلز کا ایک طبقہ بھی اس پروپیگنڈے کو خوب ہوا دے رہا کہ صادق اور امین سمیت آرٹیکل 62-63 کی تمام اسلامی شقوں کو آئین سے خارج کر دیا جائے۔ ویسے ایک بات ضرورہے کہ اگر عمران خان آئین کے آرٹیکل 62-63 کے مکمل اطلاق کے لیے سیاسی مہم چلاتے ہیں تو یہ اُن کا اس ملک اور اپنی عوام پر بڑا احسان ہو گا چاہے اس کے لیے انہیں خود اپنی اہلیت کی بھی قربانی دینی پڑے۔

.
تازہ ترین