• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم نے بالعموم اپنے اردگرد پھیلے ہوئے انسانیت سوز مناظر سے ایک خاموش سمجھوتہ کر رکھا ہے اور اپنے اندر کے انسان کو عیش وعشرت کی لوریاں دے کر سلا رکھا ہے۔ان المناک و شرمناک روزمرہ واقعات میں سے جب کوئی واقعہ اپنی مکروہ ترین شکل میں منظرعام پر آتا ہے تو ہمارے اندر کا انسان تھوڑی دیر کے لئے جھرجھری لیکر بیدار ہوتا ہے اور پھر نئی خبروں کے غبار میں اذیت ناک واقعہ اور ہماری بیداری دونوں گم ہو جاتے ہیں اور معاشرہ پھر اسی ڈگر پر چل پڑتا ہے۔ 10سالہ ملازمہ طیبہ سے قانون کے ایک محافظ اور میزان عدل کی عزت و توقیر کے گھر میں جو تڑپا دینے والا سلوک ہوا اور جس طرح سے اس معصوم بچی کے ہاتھ جلائے گئے اور اسے وحشیوں کی طرح پیٹا گیا اس نے ہمارے معاشرے کے مکروہ چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے۔ خدا بھلا کرے چیف جسٹس کا کہ جنہوں نے ان خبروں کی بنیاد پر انتہائی جاندار سوموٹو ایکشن لیا ہے اور مک مکاکی ہر کوشش کو ناکام بنا دیا ہے ۔
چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین کے انبار لگا دیئے گئے ہیں۔ ان پالیسیوں کے مطابق چودہ سال سے کم عمر کے کسی بچے سے کوئی مشقت نہیں لی جاسکتی مگر عملدرآمد کسی ایک دعوے پر بھی نہیں ہوتا۔مختلف اندازوں کے مطابق پاکستان میں اس وقت ڈیڑھ کروڑ بچے کام کر رہے ہیں جن میں سے تقریباً 75لاکھ دس سال سے کم عمر بچے ہیں۔ کیا ایسے انکشافات کے بعد ہمارے سر شرم سے جھک نہیں جانے چاہئیں۔ان حقائق کے بعد میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی صاحب احساس اور صاحب اولاد کو نیند آسکتی ہے ۔رہ گئے ہمارے وہ حکمران اور سیاست دان جنہوں نے اپنے کم عمر بچوں کے لئے جگہ جگہ محلات تعمیر کر رکھے ہیں اور ان کےلئے اربوں اور کھربوں کے بیرون ملک کاروبار قائم کر رکھے ہیں انہیں غریبوں کے بچے حشرات الارض ہی نظر آتے ہیں۔ وہ کم عمر بچہ یا کم عمر بچی جو ورکشاپوں، چائے خانوں، دفتروں اور گھروں میں چند ٹکوں کی خاطر جبری مشقت پر لگا دیئے گئے ہیں ان کا کیا قصور ہے؟ جس طرح ہر بیج میں تناور شجر بننے کے امکانات ہوتے ہیں اسی طرح غریب کے ہر بچے میں امیر زادوں اور امیر زادیوں کی طرح ڈاکٹر، انجینئر، سائنس دان، افسر اور بزنس مین وغیرہ بننے کے بے پناہ امکانات موجود ہوتے ہیں۔بچے کی غربت میں اگر قصور ہے تو اس کے والدین کا ہے، اس کی ریاست کا ہے، اس کے معاشرے کا ہے اس میں بچے کا اپنا تو کوئی قصور نہیں کہ اسے مستقبل کے تمام تر امکانات سے محروم کرکے جبری مشقت کے عقوبت خانوں میں بھیج دیا جائے۔قرآن پاک کی ایک دل دہلا دینے والی آیت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ قیامت کے روز زندہ درگور کی جانے والی بچی رب ذوالجلال سے پوچھے گی کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا۔کل رب ذوالجلال کی عدالت میں طیبہ اور اس جیسی ہزاروں طیبات اللہ کے حضور پیش ہو کر جب یہ فریاد کریں گی کہ انہیں کس جرم کی پاداش میں گھروں کے نام پر جبری مشقت کے کیمپوں میں ٹارچر کیا گیا تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہو گا۔آگے بڑھنے سے پہلے ذرا دل تھام کر اس رپورٹ کو ملاحظہ کرلیں جو گزشتہ روز پمزاسلام آباد کے باضمیر اور پروفیشنل ڈاکٹروں کے بورڈ نے طیبہ پر ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم کے گھر ہونے والے تشدد کی تصدیق کرتے ہوئے جاری کی۔ اس رپورٹ کے مطابق طیبہ کے جسم پر تشدد اور جلانے کے 22نشانات موجود ہیں۔طیبہ کی آنکھ پر ڈیڑھ سنٹی میٹر گہرے زخم کے علاوہ چہرے، ہاتھوں، بازوئوں اور گردن سمیت جسم کے دیگر حصوں پر جلائے جانے اور مختلف نوعیت کے زخموں کے نشانات موجود ہیں۔اللہ کا شکر ہے کہ ہزاروں اس طرح کے کیسوں میں سے ایک کیس میں تو دل لرزا دینے والی تصدیق شدہ میڈیکل رپورٹ سامنے آئی وگرنہ کوئی منہ زور وکیل دلیل پیش کرتا کہ ثبوت لائو، ہر جرم کے لئے نئی سے نئی دلیل لانے والے وکیلوں کے بارے میں ہی ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا ہے
وہ بھی ہیں بہت عقل پہ نازاں کہ جنہوں نے
خلقت پہ نئے ظلم کے انداز نکالے
ایڈیشنل سیشن جج اس کی بیگم اور بچوں سمیت سب کو انصاف کے کٹہرے میںکھڑا کیا جائے۔ دنیا میں ہم چرب زبانی یا میڈیا پر طول بیانی کی بناء پز بچ بھی نکلے تو روز قیامت طیبہ اور اس جیسی ہزاروںطیبات کے سوال کا کیا جواب دیں گے کہ انہیں کس جرم کی پاداش میں گھروں کے نام پر عقوبت خانوں میں بدترین ٹارچر کا نشانہ بنایا گیا۔روز قیامت یہ سوال اصحاب جبہ و دستار، علمائے کرام مال و منال اور جاہ و جلال کے دلدادہ سیاست دانوں اور عوام کی لوٹی ہوئی دولت پر سانپ بن کر بیٹھنے والے حکمرانوں، تجزیہ کاروں اور تجزیہ نگاروں وغیرہ سے بھی پوچھا جائے گا ہم اس پیغمبر کے نام لیوا ہیں جو بچوں سے انتہائی شفقت میں ضرب المثل ہے ۔وہ غلاموں سے اتنی نرمی اور چاہت سے پیش آتےتھے کہ وہ سرکاردوجہاں ﷺسے برضاورغبت آزادی ملنے کے باوجود ’’غلامی‘‘ کو ترجیح دیتے تھے اور اپنے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کر دیتے تھے۔
عدالت عظمیٰ نے آج کی پیشی میں طیبہ کو سویٹ ہوم بھیج کر مستحسن فیصلہ کیا ہے۔ہم نے ہر چیزچیف جسٹس پر چھوڑ رکھی ہے بے آسرا مظلوم بچوں کو نشانہ تشدد بنایا جائے تو چیف جسٹس نوٹس لے، بچوں بڑوں کو دودھ کے نام پر زہرپلایا جائے تو چیف جسٹس نوٹس لے، لاپتہ بچوں کی ماں کو روتے دیکھے تو چیف جسٹس کا دل پسیج جائے اور اپنے اندر کی آواز کو لبوں پر لے آئے کہ جس کا والد اپنے لاپتہ بچے کو بازیاب کرانے میں ناکام ہو جائے تو عدالت بطور والد کردار ادا کرے گی ۔ طیبہ کے معاملے میں اس وقت ہر جرم کا دفاع کرنے والے وکیلوں کو علم ہونا چاہئے کہ طیبہ کے معاملے میں چیف جسٹس نے اسلامی قانون کے ایک اہم نکتے کو استعمال کیا ہے کہ بعض سنگین نوعیت کے جرائم میں مظلوم حق الخاص معاف کر بھی دے تو حق العام کے لئے ریاست مدعی بن جاتی ہے۔ریاست کہاں ہے، حکومت کہاں ہے، اپوزیشن کہاں ہے، ثنا خوانِ تقدیس مسجد و محراب کہاں ہیں اور بیرون ملک سے بڑی بڑی گرانٹ لینے والی بیگمات کی این جی اوز کہاں ہیں۔
حل صرف ایک ہے کہ چائلڈ لیبر کے نت نئے قوانین کی کوئی اور پٹاری نہ کھولی جائے ۔صرف یہ بات یقینی بنائی جائے کہ 16برس سے کم عمر کوئی بھی بچہ ا سکول میں ہو گا یا اسپتال میں ہوگا اس کے علاوہ وہ جہاں بھی ہو گا تو اسے شدید نوعیت کا جرم دست اندازی پولیس تصور کیا جائے گا۔ حصول روز گار کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب کی ’’اخوت‘‘ کے معجزے سب کے سامنے ہیں( ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی )ان شاءاللہ کئی اور چنگاریاں سامنے آئیں گی ریاست تہیہ تو کرے، اہل خیر دریا دلی سے تعاون کریں گے۔ چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے بڑی درد مندی سے سوال اٹھایا ہے کہ ریاست تو ماں جیسی ہوتی ہے وہ ڈائن کیوں بن گئی ہے۔اب فیصلہ حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ریاست کو ماں کا مقدس درجہ دیتے ہیں یا اسے ڈائن بنا کر خوش ہوتے ہیں۔

.
تازہ ترین