• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج سے آٹھ برس قبل جب باراک اوباما امریکہ کا صدر منتخب ہوا تھا اسوقت بھی ایک تاریخ بن رہی تھی اور جب وہ ایک ہفتے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہو رہا ہے اور کل شب جو اپنا آخری خطاب اپنے ہی گھر شکاگو سے کیا تب بھی وہ تاریخ بنا کر جار رہا ہے۔ وہی شکاگو جہاں سے اس شخص نے اپنی نوجوانی میں سیاست کا آغاز کیا تھا۔ شکاگو میں جب ابھی وہ سینیٹر بھی نہیں بنا تھا تب بھی شکاگو کے لوگ اسے بلکل ’’نکڑ کی گلی والا لڑکا‘‘ یا ’’کڈ آن دی نیکسٹ بلاک‘‘ کی طرح جانتے تھے۔ تاریخ بہت ہی بے رحم جانور ہے لیکن وہ اوباما سے کافی رعایت برتے گی کسی نے لکھا ہے۔ تاریخ یقینی طور پر اسے بہت ہی اچھے الفاظ میں یاد کرے گی۔ اور امریکی عوام بھی۔ ان کی تقریر کا موازنہ تجزیہ نگاروں نے شہری آزادیوں کی تحریک کے مقبول لیکن مقتول رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کی تقریر سے کیا۔ ماہ رواں کی پندرہ تاریخ اس عظیم رہنما مارٹن لوتھر کنگ جونیئر باالعمروف ایم ایل کے جے کی سالگرہ ہے۔
آج سے آٹھ سال قبل دو ہزار آٹھ میں جب وہ پہلی بار دنیا کے سب سے طاقتور ملک کے طاقتور شخص کے طور پر صدر منتخب ہوا تھا تو میرے بیٹے سمیت وہ نسل بہت چھوٹی تھی جو آج امریکہ میں ووٹ دینے کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ جن کیلئے صدر اوباما نے بھی کل شب کی تقریر میں کہا ’’میں نے تم کو بڑا ہوتے قریب سے دیکھا ہے‘‘ میرا بیٹا بھی کہہ رہا تھا ’’جب اوباما صدر بنا تھا تو اس کے سارے بال کالے تھے اور اتنے سالوں میں اس کے بال سفید ہو گئے ہیں اور وہ کتنا بوڑھا لگ رہا ہے‘‘۔ اسکے دو ہزار آٹھ کے انتخابات کے دنوں میں ’’سیاہ فام امریکہ اوباما سے کیا چاہتا ہے‘‘ اسٹوری کے سلسلے میں نیویارک میں امریکی شعور و فن کی نشاہ ثانیہ کے مرکز ہارلیم گيا تھا جہاں میں ایسے بھی کئی لوگوں سے ملا تھا جو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے تحریکی ساتھی تھے اور اب وہ اس بات پر خوش تھے کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے خواب کی تعبیر اوباما کی صورت میں وائٹ ہائوس پر منتخب ہوکر آنیوالی تھی۔ سیاہ فام غلاموں کے خون پسینے سے تعمیر ہونے والے وائٹ ہائوس میں ایک افریقی امریکی نژاد ملک کا صدر۔ لوگوں کو وہ زمانے ابھی زیادہ پرانے نہیں یاد تھے جب نسلی امتیاز کھلم کھلا برتا جاتا تھا۔ جب سیاہ فام لوگوں کیلئے اسکول الگ تھے، چرچ الگ تھے۔ یہاں تک کہ بسوں پر بھی پہلے سوار ہونے اور پھر آگے بیٹھنے کی اجازت تک نہیں تھی۔ روزا پارک وہ پہلی افریقی امریکی خاتون تھی جو بس پر سوار کر آگے بیٹھی تھی اور اسی طرح ایسے امتیازی سلوک کو پیروں تلے روندا تھا۔ ’’مائی فٹ‘‘۔ ان امریکی سیاہ فام ’’غدری بابوں‘‘ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ اور جب وہ امریکی مسند صدرات سنبھالنے یا ’’میں باراک حسین اوباما‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ حلف اٹھانے آیا تو وہ سینیٹر ان کے ہمراہ تھے جو مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے ساتھ ان کے مشہور تاریخ ساز ’’سیلم مارچ‘‘ میں ان کے قریبی ساتھی رہے تھے۔
’’آج اوباما صرف امریکہ کا صدر نہیں ہوا بلکہ پورے بر اعظم افریقہ کا بھی صدر منتخب ہوا ہے‘‘ مجھے اس دن بر اعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والا وہ شہری بتا رہا تھا جو اس زمانے میں کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا جب اوباما بھی پڑھنے کو آئے تھے۔ تب اوباما ایک دبلا پتلا لمبا افریقی امریکی نسل کا ایک گمنام نوجوان تھا جسے، بقول اوباما کی خود نوشت کے، پورے شہر نیویارک میں فقط ایک دوست پاکستانی بغیر کسی قانونی دستاویز دوست جانتا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اوباما کے دور میں بھی سینکڑوں تارکین وطن امریکہ بدر ہوئے تھے۔ ایسے لاکھوں تھے جو اس کے متوقع اعلان اور امیگریشن اصلاحات کی طرف دیکھتے رہے تھے۔
لیکن اوباما کو محض سیاہ فام ووٹروں کی اکثریت نے امریکہ کا صدر منتخب نہیں کیا تھا وہ اسی لئے امریکہ کےصدر منتخب ہوئے کہ انکو دیگر رنگ و نسل کے لوگوں کے علاوہ ایک بڑی سفید فام اکثریت نے بھی ووٹ دیا تھا۔ جیسے ٹرمپ صرف سفید اکثریت کے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آيا۔ لیکن یہاں سفید فام متوسط اور محنت کش لوگوں نے بھی اپنا ووٹ ٹرمپ کے پلڑے میں ضرور ڈالا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ووٹ جسے ڈیموکریٹ نہیں سجھ سکے۔ اس پکتے ہوئے لاوے کو وہ بھی جو اوباما کے ووٹر تھے۔ ’’بے انتہا دولت کا ایک جگہ پر اور چند ہاتھوں میں ارتکاز‘‘ میرا مارکسسٹ دوست اس صورت احوال کو اس طرح دیکھتا ہے۔ لیکن یہی جمہوریت ہے جیسے اوباما کل شب اپنے الوداعی خطاب میں کہہ رہا تھا جمہوریت، جسے امریکیوں نے بس ایویں ہی لیا ہوا ہے۔ وہ کہہ رہے تھے ’’کہ ہم لوگ اپنے بلبلے میں بند ہیں اور ہمارے لئے سب اچھا ہے۔ ہم خیالات بھی وہ عمل پذیر دیکھنا چاہتے ہیں جو ہماری سوچ کے عین مطابق ہوں جبکہ جمہوریت خیالات کی جنگ کا نام ہے۔ انہوں نے امریکہ میں رنگ و نسل مسئلے یا ریس ایشو پر بھی دو ٹوک اور کھل کر بات کی۔ اور نیز یہ بھی کہ امریکی مسلمانوں کا امریکہ کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ہے باقی امریکیوں کے شانے بشانے۔ اور یہ کہ دہشت گردی کو شکست دینے کیلئے امریکی مسلمانوں کا ساتھ ضروری ہے۔ ’’نہ کہ ان کی رجسٹریشن‘‘ سی این این پر ایک تجزیہ نگار کہہ رہا تھا۔ اوباما نے اس انتہاپسندی کو بھی لتاڑا جو کہ ان لوگوں سے مختلف سوچ، طرز زندگی یا طرز عبادت رکھنے والوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں۔ اوباما نے ایسے لوگوں کو ’’قانون کی بالادستی کی توہین کرنے والے‘‘۔ کہا شاید باقی امریکی صدور کی طرح اوباما بھی روایتی اور تاریخی طور پر زیادہ تر میڈیا کی چکا چوند سے دور منظر عام سے پس منظر میں جاکر رفاع عامہ کے کام کریں جیسے ہر امریکی صدر اپنے گھر والے شہر میں ایک بڑی لائبریری کھولتا ہے، جس طرح صدر بش نے کھولی، یا صدر جمی کارٹر نے اور جیسے اوباما کے بھی شکاگو میں یہی عزائم ہیں۔ صدر زرداری اور فاروق لغاری کی طرح نہیں کہ صدارت سے سبکدوشی کے بعد انتخابات لڑنے ہیں۔

.
تازہ ترین