• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک چین اقتصادی راہدی (سی پیک) یقیناً ایک عظیم الشان منصوبہ ہے، اس منصوبے کے تحت چین کی سرمایہ کاری سے پاکستان کا انفرااسٹرکچر بہتر ہوگا، توانائی کی قلت پر قابو پایا جاسکےگا، بجلی کی ترسیل اور پاکستان ریلوے کا نظام بہتر ہوگا، گوادر پورٹ کی ترقی ہوگی اور ملک میں متعدد صنعتی پارک قائم ہوں گے، ان عوامل کی وجہ سے حکومت، ملکی صنعتکاروں و سرمایہ کاروں اور سمندر پار پاکستانیوں کو اپنے وطن میں بڑے پیمانے پر منفعت بخش سرمایہ کاری کرنے کا سنہری موقع مل رہا ہے، اگر یہ سرمایہ کاری ہوئی تو معیشت کی شرح نمو تیز ہوگی، برآمدات میں زبردست اضافہ ہوگا، بے روزگاری میں کمی ہوگی اور عوام میں خوشحالی آئے گی، نتیجتاً ملک کی قسمت بدل جائے گی، اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ ایک ملک کی سرمایہ کاری سے کسی دوسرے ملک کی قسمت نہیں بدلا کرتی اور بیرونی وملکی سرمایہ کاری میں توازن رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے وگرنہ معیشت میں پائیدار بہتری نہیں آسکتی۔
سی پیک منصوبہ ازخود گیم چینجر اور فیٹ (قسمت) چینجر نہیں ہوگا مگر اس منصوبے سے جو زبردست مواقع پاکستان کو میسر آئیں گے ان سے کماحقہ، استفادہ کرکے یہ مقاصد حاصل کئے جاسکتے ہیں، اس ضمن میں جو اہم شرائط ہیں ان میں (الف) صوبوں میں مکمل ہم آہنگی ہو اور یہ ہم آہنگی برقرار رہے۔
(ب)چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان، فاٹا اور آزاد کشمیر کے عوام بھی اس منصوبے کے مختلف پروجیکٹس سے پوری طرح مستفید ہوں، شامل ہیں، یہ امر خوش آئند ہے کہ گزشتہ ماہ بیجنگ میں مشترکہ تعاون کمیٹی کے اجلاس میں ان دونوں نکات پر حوصلہ افزاء پیش رفت ہوئی تھی، صوبوں کے اپنے پیش کردہ منصوبوں کو سی پیک کا حصہ بنالیا گیا ہے اور صوبوں کے تحفظات بھی بڑی حد تک دور ہوگئے ہیں، دعا ہے کہ سیاسی مفادات کے حصول کیلئے اس منصوبے کو متنازعہ نہ بنایا جائے اور احتجاجی کلچر کو فروغ دے کر سرمایہ کاری کے ماحول کو خراب نہ کیا جائے، سی پیک کے ضمن میں چند مزید حقائق نذر قارئین ہیں۔
(1)چین کے ساتھ آزادانہ تجارت کے معاہدے پر نظر ثانی کرتے وقت اس حقیقت کو فراموش نہ کیا جائے کہ چین کے ساتھ تجارت میں گزشتہ تین برسوں میں پاکستان نے 24ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ برداشت کیا ہے۔
(2)چین کی سرمایہ کاری جن شرائط پر حاصل کی جارہی ہے ان سے پاکستان کے صنعتی شعبے پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں اور پاکستان چین کی مصنوعات کی منڈی بن جائے گا، اس قسم کی اطلاعات بھی آرہی ہیں کہ سی پیک راہداری کی تعمیر میں بڑے پیمانے پر چین کی لیبر فورس حصہ لے رہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے ملک میں بڑے پیمانے پر ووکیشنل ٹریننگ کا پروگرام شروع نہیں کیا جس کی خصوصاً صوبہ بلوچستان میں اشد ضرورت ہے۔
(3)سی پیک کے ضمن میں کئے جانے والے معاہدے میں یہ شق شامل ہے کہ پاکستان ٹیکسوں کے معاملات میں چین کے سرمایہ کاروں کو خصوصی چھوٹ و مراعات دے گا،یہ بھی کہا جارہا ہے کہ نیپرا اور پیپرا جیسے ریگولیٹری اداروں کو ان مراعات وغیرہ کے ضمن میں بجا طور پر کچھ تحفظات تھے چنانچہ ان دونوں اداروں سمیت دوسرے تین ریگولیٹری اداروں کو متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کردیا گیا ہے، یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ پاکستان میں نج کاری کے عمل کی ناکامی کی اہم وجوہات میں نج کاری کے عمل کے غیر شفاف ہونے کے علاوہ اس بات کا بھی دخل رہا ہے کہ ملک میں ریگولیٹری ادارے بشمول اسٹیٹ بینک، ایس ای سی پی اور سی سی پی جیسے اہم ادارے بھی سیاسی مداخلت کی وجہ سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کرنے میں ناکام رہے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ پانچ اداروں کو متعلقہ وزارتوں کے ماتحت کرنے کا فیصلہ اگرچہ غیر دانشمندانہ ہے مگر غیر قانونی نہیں ہے کیونکہ وزیراعظم نے یہ فیصلہ اپنے قانونی اختیارات کے تحت کیا ہے، چیئرمین سینیٹ کی یہ بات درست نہیں ہے کہ اس فیصلے سے قبل مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری لینا ضروری تھا۔
(4)سی پیک کے تحت منصوبوں میں مکمل شفافیت رکھی جائے۔
(5)توانائی کے شعبے میں چین کی سرمایہ کاری بھاری شرح منافع پر حاصل کی جارہی ہے، آنے والے برسوں میں چین کے سرمایہ کار منافع کی بھاری رقوم اپنے ملک لے جائیں گے، یہی نہیں، مختلف صنعتی زونز اور متعدد منصوبوں کیلئے پاکستان کو بڑے پیمانے پر مشینری وغیرہ کی درآمدات کرنا ہوں گی چنانچہ آنے والے برسوں میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو بڑھے گا، قرضوں کے حجم میں تیزی سے اضافہ ہوگا، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں میں مشکلات پیش آئیں گی اور بیرونی شعبہ مشکلات کا شکار ہوگا۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں حکومت کو ایک مربوط حکمت عملی فوری طور پر اپنانا ہوگی، اس کے نکات میں مندرجہ ذیل شامل ہوں:
(1)پاکستان کچھ ترقی پذیر ممالک کی اوسط کے لحاظ سے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی، قومی بچتوں اور مجموعی سرمایہ کاری کی مد میں تقریباً بارہ ہزار ارب روپے سالانہ کم وصول کر رہا ہے، اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ٹیکسوں، ترسیلات و سرمایہ کاری کے ضمن میں مسلم لیگ (ن) کے انتخابی منشور پر عمل کرنا ہوگا۔ اسٹیٹ بینک کو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ سودی بینک بھی بچت کھاتے داروں کو اپنے منافع میں شریک کریں، ربوٰ کا مقدمہ وفاقی شرعی عدالت میں گزشتہ 14برس سے غیر ضروری طور پر زیر التوا ہے، بینکوں کے قرضوں کی معافی کا مقدمہ گزشتہ 9برسوں سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور فیصلہ نہ آنے سے کئی سو ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔(2)کسی بھی حالت میں اب نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجراء نہ کیا جائے کیونکہ یہ تباہی کا نسخہ ہوگا، پاکستان سے لوٹ کر بیرونی ملکوں میں منتقل کی گئی رقوم وطن واپس لانے کی حکمت عملی ہم ان ہی کالموں میں لکھتے رہے ہیں، اس حکمت عملی کا خاکہ ہم نے سپریم کورٹ کی شریعت اپیلیٹ بنچ کے سامنے ربوٰ کے مقدمے میں بھی پیش کیا تھا جس کی تفصیلات بینچ کے سربراہ کے فیصلے میں بھی موجود ہیں۔
پاکستان اب ایک دوراہے پر کھڑا ہے اگر اس کالم میں پیش کی گئی تجاویز پر عمل کیا جاتا ہے تو پاکستان کی قسمت یقیناً بدل سکتی ہے وگر نہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے سے بھی پاکستان کی قسمت تو کیا بدلے گی الٹا لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں، بدقسمتی سے الیکٹرانک میڈیا خصوصاً ٹاک شوز کی توجہ سیاسی جھگڑوں کی طرف رہی ہے، اب تو پوری قوم کو پاناما لیکس اور اس کے مقدمے کی طرف لگا دیا گیا ہے یہ یقیناً ایک قومی المیہ ہے کہ اہم معاشی ومالیاتی امور کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے حالانکہ ان معاملات کا تعلق قومی سلامتی، قومی مفادات اور عوام کی فلاح و بہبود سے ہے۔

.
تازہ ترین