• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیض نے کہا تھا ’’لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے‘‘، پاکستان قوم بھی ایک طویل شام کے الم ناک درد بھرے ہیولوں سے نبرد آزما ہو کر روشن سحر سے ہم کلام ہو چکی ہے۔ ہم واقعتاً زندہ قوم تھے، ہمارے دلوں نے بے شمار صعوبتیں جھیلیں، ہماری آنکھوں نے لہو مناظر دیکھے، ہماری سماعتوں نے فضائوں میں پھیلے بین سنے مگر ہم نے زندگی کرنا نہیں چھوڑی۔ مطلب حالات کی گرانی نے ارادوں کو مخدوش کرنے والی مایوسی کے مقابل ہمارے عزم کو سرخرو رکھا۔ ہم اس نسل کے نمائندہ ہیں جن کے آزاد فضائوں میں کھلکھلاتے بچپن میں فرقہ پرستی، دہشت گردی، بنیاد پرستی اور آمرانہ ذہنیت کا کوئی عمل دخل نہیں تھا، گھروں اور دلوں کے دروازے کھلے رہتے تھے اس لئے ایک دوسرے کے دُکھ سکھ سے آشنائی یقینی تھی اور آپس میں خاندان کا احساس محسوس ہوتا تھا۔ پھر یکدم نہ جانے کیا ہوا عالمی منظر نامے پر ایسی صورتحال ہو گئی جس نے ہماری پاک سرزمین کو زہر آلود کر دیا۔ بہت ساری قوتیں اپنے اپنے مفادات کے لئے سرگرم ہو گئیں۔ سال بہ سال نت نئے تجربات کا آغاز ہوا۔ گروہ مضبوط ہوتے گئے اور ریاست کمزور پڑتی گئی۔ ریاست کے کمزور ہونے سے پاکستان کا فلاحی چہرہ متاثر ہوا۔ بڑی دیر ہم نے قوم کے بچوں کو امیری اور غریبی کے خانوں میں تقسیم کر کے استحصال کی پشت پناہی کی۔ ہر بچہ محبت، تعلیم اور بنیادی سہولتوں کا حق دار ہوتا ہے۔ بچے کو یہ تمام سہو لتیں فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شکر ہے اس سمت سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس وقت سب سے بڑی خدمت اور اصلاحی کاوش نئی نسل کے خوابوں کو تعبیر دینا ہے۔ انہیں مایوسی اور ناکامی کے خوف سے بچانا ہے۔ پنجاب انڈومنٹ فنڈ کا قیام اسی مقصد کی کڑی ہے۔ بظاہر یہ ایک ادارے کا نام ہے جو مستحق طلباء کو وظائف کا اہتمام کرتا ہے مگر یہ صرف ادارہ نہیں بلکہ ایک سوچ اور فکر ہے، ایک سہانا خواب ہے، رنگ، نسل، مذہب اور برادری سے ماورا ہو کر ایک ایسے سماج کی جستجو ہے جہاں گلی میں ننگے پائوں اور بے حال پھرنے والے بچے بھی اسی توقیر کے مستحق قرار دیئے جائیں۔ غربت کے ہاتھوں تعلیم سے دور ڈیڑھ لاکھ طالب علم اس سے مستفید ہو چکے اور آنے والے دنوں میں بہت سے اس کے دائرہ کار میں سمانے والے ہیں۔
میرٹ، دیانت، صداقت اور امانت کی بنیادوں پر استوار یہ ادارہ جس تیز رفتاری سے آگے بڑھ رہا ہے اس سے امید بندھ چلی ہے کہ اب یہ واقعتاً نئے پاکستان کی تعمیر میں اہم سنگِ میل ثابت ہو گا۔ اس ادارے نے دوبارہ زمین میں شعور اور علم کی پنیری بونے کا سلسلہ آغاز کر دیا ہے۔ علم کے سورج کی طاقتور کرنیں معاشرے کی رگوں میں پھیلے زہر کو اپنی توانائی سے تہس نہس کر دیں گی۔ آج جس محروم طبقے کو علم کے زیور سے آراستہ کر کے خود اعتمادی کی رہگزر پر تعینات کیا جا رہا ہے کل وہ نئی شاہراہیں تعمیر کریں گے۔ یہ ادارہ صرف تعلیم نہیں بلکہ ذہنوں میں خیر، صداقت اور روشنی کی شمع اُجالنے کا فریضہ سرانجام دینے جا رہا ہے۔ اس سے بڑی خدمت کیا ہو سکتی ہے؟ ایک وہ دور تھا جب ہماری نئی نسل سے خواب چھین لئے گئے تھے، انہیں علم و آگہی سے دور کر کے جنون اور وحشت کے حوالے کر دیا گیا تھا اور ایک آج کا منظر نامہ ہے جب طالب علموں کی آنکھوں میں جھلکتے خوابوں کو سچ کرنے کے لئے معاشرہ متحرک ہو چکا ہے۔
بطور انسان اور شہری جو حقوق ہم سے چھین لئے گئے تھے وہ اب ہم اپنی نئی نسل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم انہیں ایک ایسے شفاف ماحول میں پروان چڑھانا چاہتے ہیں کہ کل جب وہ اختیارات سنبھالیں تو وہ کسی اندرونی گروہ یا بیرونی طاقت سے خوفزدہ ہوں نہ ڈکٹیشن لینے پر مجبور ہوں۔
راجن پور کے چھوٹے سے گائوں جام پور کی گلشن رشید پیف کی بدولت آج ڈاکٹر گلشن رشید بن چکی ہے۔ وہ محنت کے بل بوتے پر آگے بڑھنے والوں کے لئے ایک اُمید کا استعارہ ہے کہ جو نیک نیتی سے کچھ حاصل کرنے کا ارادہ کرے گا وہ اسے حاصل کر کے رہے گا۔
قدرت وسیلے پیدا کرتی ہے۔ دل میں جذبہ اور آنکھوں میں خواب ہونے چاہئیں۔ حکمرانوں اور تمام اختیار کی کرسیوں پر بیٹھے لوگ حکومت کی طرف سے تعینات وسیلے ہوتے ہیں۔ اگر وہ قدرت کے احکامات کے مطابق عمل نہیں کرتے تو وہ اپنے ضمیر، معاشرے اور قوم کے مجرم ہوتے ہیں مگر ابھی بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ابھی بھی بہت سارے ایسے معاملات ہمارے سامنے موجود ہیں جن کا حل تلاش کرنا ضروری ہے۔ لاہور جیسے ترقی یافتہ شہر کی بارونق سڑکوں پر سرِ شام کچھ مرد و خواتین معصوم بچوں کو اُٹھائے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے اور اس کا سدباب ہونا چاہئے۔ ان بچوں کو بھی اسکول میں داخل کرانا چاہئے کیوں کہ ان بچوں کو بھی کل کے مستقبل پر اثر انداز ہونا ہے۔ دوسرے وہ بچے جن کے خواب چھین لئے گئے تھے ان کے لئے بھی خاص پروگرام شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ زندگی کی رہگزر پر دوبارہ رواں ہونے کے خواہش مند ہیں۔ ان کے بچپن کے زخمی احساسات مرہم کے لئے ہم سب کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کیا حکومت پنجاب کے پاس ان کے امراض کے لئے بھی کوئی دوا ہے۔ مدارس کو قائم رہنا چاہئے لیکن وہاں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔ کسی نئی بحث میں پڑنے کی بجائے موجود اساتذہ کو جدید تعلیم سے آراستہ کر کے فرائض سونپے جائیں۔ ان بچوں کو بھی زندگی کی خوشیوں میں حصہ لینے کا حق دیا جائے، انہیں بھی خواب دیکھنے کی آزادی ہو، وہ بھی موسم کے ساتھ کھلکھلا سکیں، اپنی مرضی سے سوچ سکیں، اپنی مرضی سے زندگی کا فیصلہ کر سکیں۔ معاشرے میں موجود مختلف طبقاتی نظامِ تعلیم ایک سانچے میں ڈھال دیا جائے تو ہم ایک قوم بننے کا سفر آغاز کر سکتے ہیں۔
انسان اپنی نامکمل خواہشوں کو بچوں کی زندگی میں دیکھ کر اپنا کتھارسز کرتا ہے۔ ہمارے بڑوں سے لاعلمی میں بہت سی خطائیں سرزد ہوئیں اور ہماری نسل بھی بہت سی غلط پالیسیوں کا آلۂ کار بنی۔ اب ہم سب کو کفارہ ادا کرتے ہوئے نئی نسل کو محرومیوں اور مایوسیوں کی بجائے اُمیدیں منتقل کرنی ہیں۔ ہمارے کُل کا اثاثہ ہمارے بچے ہیں جو شعوری حوالے سے ہم سے آگے کھڑے ہیں، جنہیں کمپیوٹرائزڈ دور نے پوری دنیا سے منسلک کر رکھا ہے۔ ہم نے انہیں گزشتہ المناک واقعات کا بدلہ نفرت سے لینے کی بجائے محبت سے دنیا کو بدلنے کا عزم دینا ہے۔ میں ماں کی نظر سے پاکستان کو ایک خاندان کی طرح مل جل کر رہنے کا خواب دیکھتی ہوں۔ آئیے اس ملک کو تعلیم کی طاقت سے ایک گلشن میں بدل دیں جس میں ہمارے بچے اور ان کے بچے خود اعتمادی اور سرشاری سے کھلکھلاتے رہیں۔ صرف تعلیم ہی قوموں کی زندگی سنوار سکتی ہے۔

.
تازہ ترین