• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے موجودہ صدر باراک اوباما نے امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا ہے یا نصیحت فرمائی ہے کہ مملکت کے امور اپنے خاندانی یا گھریلو کاروبار کی طرح نہیں چلائے جاتے کہ حکومت کے اہم اداروں اور محکموں کو اپنے بھائیوں، بیٹوں، بھتیجوں اور بھانجوں کے حوالے کر دیا جائے۔ حکومت کے اداروں کو چلانے اور شعبوں کو کام کرنے کے لئے کچھ اصول، قانون یا ضابطے ہوتے ہیں جن پر عمل کرنے کی پابندی ہوتی ہے۔یقینی بات ہے کہ امریکہ کے منتخب صدر سے جو ابھی اپنے عہدے کا حلف بھی نہیں اٹھا سکے ان ضابطوں اور قاعدوں سے لاعلمی کی بنیاد پر کچھ کام ہو گئے ہوں گے جن پر موجودہ صدر باراک اوباما کو اپنے خیالات اور تجربات کی روشنی میں تبصرہ کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی اور امید کی جا سکتی ہے کہ امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ جب اپنے بعد امریکہ کا صدر بننے والے شخص کو چارج دیں گے تو مذکورہ بالا ہدایات بھی دے دیں گے۔یہ ہدایت صرف امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے ہی ضروری نہیں دنیا کے دیگر بہت سے حکمرانوں کو بھی بتانی ضروری ہے جو حکومت کے کاروبار اور اپنے ذاتی کاروبار کے امور میں کچھ زیادہ فرق محسوس نہیں کرتے اور جہاں بھی کوئی ذمہ داری اور فرض شناسی کا عہدہ خالی نظر آتا ہے اپنے کسی عزیز یا رشتے دار کو اس عہدے پر براجمان کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طریقے سے وہ بہت محفوظ اور مامون ہو گئے ہیں جبکہ یہ اصولوں، قوانین اور ضابطوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ بعض ایسے ممالک ہیں جہاں کے حکمران کھانے پینے کی چیزوں کے اس قدر متوالے ہیں کہ کوئی صاحب انہیں اچھی نسل کا ساگ کھلا کر کسی ملک کا سفارتی عہدہ حاصل کر سکتے ہیں۔ چند چکن چپڑی باتیں کر کے اور لطیفے سنا کر وزیروں کے برابر کے عہدے کا منصب حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں مگر اب عہدے اور منصب کچھ زیادہ پائیدار ثابت نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کے دن پورے ہوتے ہیں تو ان عہدوں اور منصبوں کے دن بھی پورے ہو جاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ مختصر عرصے میں اِن عہدوں پر موجود لوگ اپنی اگلی نسلوں کی قسمت بھی سنوار چکے ہوتے ہیں لیکن وہ نقصان بہت تھوڑے لوگوں کو دکھائی دیتا ہے جو حکمرانوں کے رشتہ دار ان عہدوں اور منصبوں کو پہنچا چکے ہوتے ہیں جن کی تلافی صرف مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوتی ہے۔بعض اخبارات میں اس نوعیت کی خبریں شائع ہوئی تھیں کہ امریکہ کے اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب میں امریکی ووٹروں سے زیادہ حصہ روسی ’’کے جی بی‘‘ کا ہے چنانچہ اگر یہ افواہ یا خبر صحیح ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ کا اس میں کوئی قصور نہیں ہو گا کہ وہ حکمرانی کے رازوں اور بھیدوں سے پوری طرح واقف نہیں ہے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے تو انہیں تمام قوانین اور ضابطوں سے آگاہی ہو جائے گی اور دنیا کی سب سے بڑی مملکت کی سربراہی کی ذمہ داریاں اٹھانے کے حلف کے ساتھ ان کے عہدے کا رتبہ تمام اصولوں، قانونوں، ضابطوں سے ماورا ہو جائے گا۔ عام تصور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص امریکہ جیسے ملک کا صدر بن جاتا ہے وہ عام انسانوں کے مدار سے باہر نکل جاتا ہے۔ کوئی بہت ہی زیادہ سپر مین یا سپر صدر بن جاتا ہے اور عام انسانی ضابطے اور اصول و قانون اس سپر صدر کے غلام بن کر رہ جاتے ہیں۔

.
تازہ ترین