• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بہت کم واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی تفصیل سن کر منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے:اچھا ہوا۔ کراچی میں دو حضرات راہ چلتے لوگوں کو لوٹ رہے تھے، راہ چلتے ایک شخص نے پستول نکالی اور دونوں کو مار ڈالا۔ قانون یا noقانون۔ سچ تو یہ ہے کہ جی خوش ہوا۔ ذرا سوچئے، زندگی نہ ہوئی مذاق ہوگئی۔ لوگ ہتھیار اٹھائے گھوم رہے ہیں اور ہر آتے جاتے کی کنپٹی پر نالی رکھ کر کہہ رہے ہیں کہ نکال دو جو کچھ تمہارے پاس ہے۔ ایک خدا کے بندے نے یہی کیا۔ نکال دیا جو اس کے پاس تھا اور دو گولیاں دو ناہنجاروں کے سینے میں اتار دیں۔ اب کوئی چلّاتا ہے تو چلّاتا رہے کہ قانون ہاتھ میں لینا ٹھیک نہیں۔ ذرا تصور کیجئے کہ یہ ڈاکواگر جہنم رسید نہ ہوتے اور ان کا کیس پولیس کے سپرد کردیا جاتا تو کیا ہوتا۔ لیجئے منظر نامہ پڑھئے۔کوئی دیوانہ اور سر پھرا شامت کا مارا تھانے چلا جاتا اور جاکر کہتا کہ دو نامعلوم افراد کے خلاف شکایت درج کرانے آیا ہوں۔ تھانے کے عملے کو جوں ہی خبر ملتی کہ کوئی قسمت کا مارا رپٹ لکھوانے آیا ہے، سارے عملے میں کانا پھوسی شروع ہوجاتی کہ کوئی احمق آگیا ہے نشانے پر۔سب سے پہلے اسی کو دھر لیا جاتا۔ پھر پوچھا جاتا کہ تمہاری جیب میں کیا کیا ہے۔ اس کی جیبیں جھاڑی جاتیں۔ اب کہیں سے وہ محرر صاحب نکل کر آتے جو پرچہ لکھتے ہیں۔ ان کے ایک ہاتھ میں قلم او ردوسرے میں شکایت لکھوانے والے کا مقدر ہوتا۔ اب محرر صاحب اپنے میلے کچیلے چشمے کے غلیظ شیشوں کے پیچھے سے تھانے آنے والے شخص کو یوں دیکھتے جیسے قربانی کے جانور کو خریدنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے۔ پھرسوچتے کہ اس بدبخت پر کون کون سی دفعہ لاگو ہوگی۔ اور اس کے بعد جس ہنر مندی اور مہارت کا مظاہرہ ہوتا وہ بڑے بڑے دانش مندوں اور مفکروں کے تصور کے کسی جھروکے سے بھی نہ گزرا ہوتا۔ اب وہ شے لکھی جاتی جسے مقدر کا لکھا کہا کرتے ہیں، اب رپٹ لکھی جاتی، یعنی آج کی زبان میں پرچہ چاک کیا جاتا۔ اس میں ثابت کیا جاتا کہ جو شخص محرر کے سامنے سہما سمٹا بیٹھا ہے،یہ اسلحہ اٹھائے راہ چلتے لوگوں کو لوٹ رہا تھا۔ اس کے بعد کی ساری کارروائی اندر دفترمیں بیٹھے داروغہ جی انجا م دیتے۔ اگلے منظرمیں یہ طے ہورہا ہوتا کہ تھانے سے گلو خلاصی کے کتنے پیسے بنیں گے۔ اور اس شخص کو اس وقت تک نہ چھوڑا جاتا جب تک وہ ٹیپ ریکارڈر کے سامنے اقرار نہ کر لیتا کہ وہ راہ چلتے لوگوں کو لوٹ رہاتھااور جب تک مطلوبہ رقم کا بندوبست نہ کرلیتا۔
میں کراچی کے ایک ایسے کنبے سے واقف ہوں جن کے گھر میں ڈاکو داخل ہوئے اور سارا قیمتی مال اسباب باندھ کرا ن ہی کی کار میں بھر کر لے گئے۔ وہاں تک تو غنیمت ہوا، غضب اس وقت ہوا جب ان کا جوان بیٹا پولیس کو خبر کرنے تھانے چلا گیا۔ وہ تین گھنٹے بعد اس حالت میں واپس آیا جیسے وہ تھانے سے نہیں کسی کولہو سے گزر کر آیا ہے۔ گھر آتے ہی اس نے خود کو صوفے پر گرا دیا اور بولا کہ ان لوگوں سے تو ڈاکو بھلے۔
یہ روز کا قصہ ہے۔ جو بات مجھے سب سے زیادہ حیران کرتی ہے وہ یہ کہ پولیس خدا جانے کیوں اور کیسے ظالم کی طرف دار ہو جاتی ہے۔خود ہی مقدمہ درج کرتی ہے اور فوراً ہی چالبازی کے داؤ پیچ شروع کردیتی ہے، خدا جانے کس نے اس کے کاسہ ء سر میں اس بلا کی ذہانت اتار دی ہے کہ وہ نہایت ہنرمندی او رمہارت سے مظلوم کے کیس کو کمزور کرکے ظاہر ہے کہ اپنی روزی کھری کرلیتی ہے۔ تازہ مثال ان صاحب کی ہے جنہوں نے ایک کمسن لڑکی کو اپنے گھر میں ملازم رکھ لیا۔خدا جانے کس کی بچّی تھی اور وہ کیسی مجبوری تھی کہ ماں باپ بچّی کو کسی کے حوالے کر گئے۔اس پر غلامی کا وہ دور یاد آتا ہے جب غلام اور کنیزیں بازاروں میں فروخت ہوا کرتی تھیں۔ لوگ کبھی قیمت چکا کر اور کبھی بولی لگا کر انسان کو یوں لے جاتے تھے جیسے کوئی دنبہ یا ہرنی کی بچّی کے گوشت اور ہڈّی کے مالک ہو گئے ہوں۔ اس کے بعد مرد کا جو حشر ہوتا تھا وہ قیاس کرنا مشکل نہیں لیکن کنیز کی جو درگت بنتی تھی، اسے سوچنے کے لئے قیاس کے گھوڑے دوڑائیے، آپ تھک جائیں گے، گھوڑے نہیں۔
اب گھریلو ملازمہ پر جو گزری وہ کوئی بیان کرے تو کیونکر۔یہ تو معلوم ہوگیا کہ صاحب خانہ اور ان کی اہلیہ بچّی کی چمڑی ادھیڑا کرتی تھیں۔ وقت آگیا ہے کہ یہ بھی معلوم ہو جائے کہ یہ ایک نفسیاتی مرض ہے۔ کسی کمزور اور ناتواں کو ایذا پہنچانے والے عموماً نا آسودہ ہوتے ہیں۔ ان میں احساس محرومی سرایت کرجاتا ہے۔ اکثر عمر ایسے مقام پر پہنچ جاتی ہے جب ان کی بعض توانائیاں زائل ہو جاتی ہیں۔انہیں یا تو آگ لگا کر لذت ملتی ہے یا کسی جاندار کی چمڑی ادھیڑ نے میں لطف آتا ہے۔ ہمارے ملکوں میں کمسن اور نو عمر گھریلو ملازم اس کام کے لئے موزوں ترین ہوتے ہیں کیونکہ، مثال کے طور پر مالکن ان کا ہاتھ پکڑ کر چولہے میں دے دیں، چمڑی ادھیڑیں اور ہڈی پسلی ایک کردیں تو ایک بار تو وہ دنیا والوں کو سچ سچ بتادیں گے لیکن اگلی بار وہی بتائیں گے جو ان کو مار مار کر سکھایا جائے گا۔
بچے من کے سچے ہوتے ہیں۔ان کے سینے میں چھوٹا سا صدف ہوتا ہے جسے آپ چاہیں تو صداقت کہہ لیں۔لیکن اس وقت بچے کا حال دیکھا نہیں جاتا جب اسے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بس وہی غضب کا لمحہ ہوتا ہے جب قدرت کے سارے اصول اورضابطے ٹوٹتے ہیں، جب مظلوم بچہ اپنی فطرت کے بر خلاف جھوٹ بولتا ہے۔پرانے وقتوں میں تو سنا تھا کہ قدرت کے طے کئے ہوئے ضابطے اور کُلّیے توڑے جائیں تو بستیاں تباہ ہوجاتی تھیں۔حیرت ہے اب اُس وقت آسمان کیوں شق نہیں ہوتا اور بجلیاں کیوں نہیں کوندتیں جب قدرت ہاررہی ہوتی ہے،اورجب ظالم جیت رہا ہوتا ہے۔

.
تازہ ترین