• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ کے مقرب بندے اور ولی بختیار کاکیؒ نے دنیا سے پردہ کیا تو یہ سوال کھڑا ہوا کہ ان کی نمازِ جنازہ کون پڑھائے گا۔ ان کی وصیت تھی کہ میرا نماز جنازہ وہ پرہیزگار شخص پڑھائے جس نے کبھی کوئی نماز قضا نہ کی ہو، جس نے نماز عصر سے پہلے کی چار سنتیں کبھی نہ چھوڑی ہوں، زندگی بھر تہجد میں ناغہ نہ کیا ہو اور کبھی کسی نامحرم عورت پر دوسری نگاہ نہ ڈالی ہو۔ دن بھر انتظار کے بعد ایک شخص آگے بڑھا، بختیار کاکی کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: ’’آپ تو چلے گئے مگر میرا راز فاش کر گئے‘‘، یہ شخص جو وصیت کے مطابق نماز جنازہ پڑھانے کی اہلیت رکھتا تھا، اس کا نام سلطان شمس الدین التمش تھا۔
بچپن میں یہ ایمان افروز واقعہ پڑھا تو ذہن میں نقش ہو گیا مگر بعد میں تاریخی کتب سے کوئی مستند حوالہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو ناکامی ہوئی۔ تاریخ فرشتہ سے معلوم ہوا کہ سلطان شمس الدین التمش اچھا حکمراں تھا مگر فرشہ صفت انسان نہیں تھا۔ قطب الدین ایبک جو خود شہاب الدین غوری کا غلام تھا، اس کی تین بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک کی شادی اس نے اپنے غلام التمش سے کی اور دوسری بیٹی ناصر الدین قباچہ سے بیاہی گئی۔ ناصر الدین قباچہ ملتان سے سندھ تک کے علاقے کا حکمراں تھا اور اپنے ہم زلف التمش کی ہوس اقتدار کا شکار ہو کر مرا جس کی تفصیل تمام تاریخی کتب میں موجود ہے۔ سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس قصے کے دونوں کردار یعنی بختیار کاکی اور التمش دونوں نے ایک ہی سال میں وفات پائی۔ اگرچہ ایسے رومانوی کردار محض تخیلاتی دنیا میں ہی پائے جاتے ہیں لیکن بالفرض محال اگر اس واقعہ کو سچ بھی مان لیا جائے تو قطب، ابدال اور اولیا کی سرزمین سے اس دور میں چراغ لیکر ڈھونڈنے کے باوجود ایسا محض ایک ہی شخص مل سکا جو اچھا مسلمان ہو۔ مگر ہمارے امیر المومنین حضرت ضیاءالحق مر حوم نے خواب دیکھا کہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے لئے 472ایسے افراد تلاش کئے جائیں جو کم وبیش معصوم عن الخطاء ہوں۔ چونکہ ملک کا دستور ہمہ وقت ان کے دربار میں دست بستہ مودب کھڑا پایا جاتا تھا، اس لئے جھٹ پٹ اس میں آرٹیکل 62,63کا اضافہ کردیا گیا۔ عین ممکن ہے کہ یہ کڑا معیار مقرر کرتے وقت ان کو خیال آیا ہو کہ انتخابات کا وعدہ کر کے مُکر جانے اور سیاسی مصلحت کے پیش نظر تواتر سے جھوٹ بولنے کے باعث تو وہ خود بھی نااہل ہو جائیں گے مگر اچانک کسی خیرخواہ نے ان کے کان میں سرگوشی کی، یا سالار المسلمین! آپ دل چھوٹا کیوں کرتے ہیں۔ یہ معیار تو مجلس شوریٰ کے ارکان کے لئے مقرر کیا گیا ہے آپ جناب تو امیر المومنین ہونے کے ناتے ان شرائط سے مبریٰ و مستثنیٰ ہیں۔ اس وقت سے لیکر آج تک ہمارے منتخب نمائندے ایک ایسی تنی ہوئی رسی پر چلے جا رہے ہیں جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز دھار ہے۔ پاناما لیکس کی سماعت کے دوران درخواست گزاروں نے آرٹیکل 62,63کی کئی دھاری تلوار سے اپنے سیاسی مخالفین کا سر قلم کرنے کی خواہش ظاہر کی تو جسٹس آصف سعید کھوسہ بے ساختہ کہہ اٹھے، اگر اس کسوٹی پر جانچا گیا تو پارلیمنٹ میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ تو ازراہ تکلف سراج الحق کا نام بطور استعارہ لے بیٹھے ورنہ تکلف برطرف، سراج الحق بہت نیک اور اچھے انسان ہیں مگر اسی معاشرے کے فرد ہیں۔ اگر ان شقوں پر مِن و عن عملدرآمد ہو تو وہ بھی اس پلِ صراط کو عبور نہ کر پائیں گے۔
ضیائی دستور کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے ارکان کی اہلیت کا معیار یہ ہے کہ وہ ’’اچھے کردار کے مالک ہوں اور ان کی شہرت ایک ایسے مسلمان کی ہو جو اسلامی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ اسلامی تعلیمات کا معقول اور موزوں علم رکھتا ہو۔ اسلام کے بیان کردہ فرائض پورے کرتا ہو اور کبائر سے اجتناب کرتا ہو۔ عاقل، صالح، نیکوکار، ایماندار اور دیانتدار ہو اور کوئی عدالت اسے ان صفات سے عاری قرار نہ دے چکی ہو۔ قیام پاکستان کے بعد کبھی ملکی سالمیت کے خلاف کام نہ کیا ہو یا نظریہ پاکستان کی مخالفت نہ کی ہو‘‘۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر مسلمان دوسرے کو اچھا یا بُرا مسلمان تو کجا دشمنِ دین و ایمان سمجھتا ہو، جہاں غداری کے سرٹیفکیٹ اور کفر کے فتوے بے حساب بانٹے جاتے ہوں، وہاں یہ کیسے طے ہو گا کہ کون اچھے کردار کا مالک ہے، کس کی شہرت اچھی ہے، اسلامی تعلیمات کے موزوں علم کا پیمانہ کیا ہو گا، ایماندار اور دیانتدار کا فتویٰ کسے ملے گا اور کون دے گا؟ ملکی سالمیت کی تعریف کیا ہے اور نظریہ پاکستان کی حمایت کا مدار کہاں ختم ہوتا ہے اور مخالفت کا مدار کہاں سے شروع ہوتا ہے؟ چونکہ جماعت اسلامی استعارہ ٹھہری ہے تو اسے ہی مثال بنا لیتے ہیں۔ اچھے کردار کا بیرومیٹر لیکر چیک کریں تو منور حسن اول قرار پائیں گے یا سراج الحق؟ علمی اعتبار سے پرکھا جائے تو لیاقت بلوچ کو آئیڈیل تسلیم کیا جائے یا پروفیسر خورشید سے تقابل کیا جائے؟
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ جیسی روح ویسے فرشتے۔ جیسے عوام ویسے حکام مگر یہ سیدھی اور عام فہم سی بات سمجھ کیوں نہیں آتی کہ کیکر کے درخت پر انگور نہیں اُگتے، ببول پر گلاب کے پھول نہیں کھلتے تو اخلاقی انحطاط کا شکار جس معاشرے میں اچھے انسان ناپید ہوچکے ہیں وہاں عمر بن عبدالعزیز جیسے حکمراں کہاں سے آئیں گے؟ عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ سب نااہل ہوتے ہیں تو ہو جائیں، پارلیمنٹ کو تالا لگا دیں، کوئی نہیں بچے گا تو نہ بچے، یہ ملک تو بچ جائے گا۔ سبحان اللہ ملک بچانے کی کیا خوب تدبیر بتائی ہے خان صاحب نے۔ بس یہ فرما دیجئے کہ اس ارض پاک کو آپ سمیت گناہگار پاکستانیوں سے پاک کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جائے؟ کسی کافر ملک سے اپیل کی جائے کہ ایٹم بم گرا دے تاکہ ہم رہیں نہ رہیں، یہ جمہوریت نہ رہے، یہ آئین نہ رہے مگر امیرالمومنین ضیاءالحق کی بنائی ہوئی یہ شقیں سلامت رہیں۔ بس رہے نام ضیاءالحق کا۔ ہم نہ ہوں ہمارے بعد ضیا ءالحق۔


.
تازہ ترین