• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایسے واقعات ہمارے مشاہدے میں آتے رہے ہیں کہ جب ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ڈھیر سارے ٹیسٹ کرانے اور مہینوں اُن کی تجویز کردہ دواؤں کے استعمال اور ٹیکوں کی تکلیف اُٹھانے کے باوجود مریض کو ذرا بھی افاقہ نہیں ہوتا، تو وہ آخر میں تشخیص کرتے ہیں کہ اِسے الرجی ہے۔ پھر الرجی کا سبب معلوم کرنے کے لئے اَن گنت ٹیسٹ کرائے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا جبکہ مریض کی صحت بگڑتی جاتی ہے۔ تب یہ خیال عام ہونے لگا کہ الرجی کا کہیں وجود ہی نہیں اور ڈاکٹروں نے پیسے بٹورنے کے لئے ایک ہوّا کھڑا کر رکھا ہے، مگر تازہ ترین طبی تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ الرجی واقعی ایک بیماری ہے جو پھیلتی جا رہی ہے اور اِس کے اسباب میں ذہنی، نفسیاتی اور حیاتیاتی عوامل بھی شامل ہیں۔ جب اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت بنا، تو ہمارے زیرک منصوبہ سازوں نے لاکھوں کی تعداد میں شہتوت کے درخت لگا دئیے، حالانکہ اُن سے بڑے پیمانے پر الرجی خارج ہوتی اور یہ مختلف امراض کا باعث بنتے ہیں۔
پوری دنیا میں پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں جس قدر نعمتوں کی فراوانی ہے، اِسی قدر اُن کی ناقدری بڑھتی جا رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بخششوں اور فیاضیوں سے لطف اندوز ہونے اور اُن کا شکر بجا لانے کی بجائے اُن میں کیڑے نکالنا ہمارا مزاج بنتا جا رہا ہے۔ کوئی خوشی ہمیں راس نہیں آتی اور اگر کہیں سے اچھی خبر آتی ہے، تو ہمیں اِس کی الرجی ہو جاتی ہے۔ یہ درست کہ ہمارے بعض رہبروں نے ہمیں بہت فریب دیے ہیں اور طالع آزماؤں نے رات کے اندھیروں میں بڑے بڑے شبخون مارے ہیں، اِس لیے ہمیں ہر سرسراہٹ میں سانپ کی پھونک محسوس ہوتی ہے اور بے وجہ ایک خود تراشیدہ غم کے اندر گھلنے کی ہمیں عادت سی پڑ گئی ہے۔ اِس کی مثال آپ اِس شعر میں دیکھ سکتے ہیں ؎
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
ہمیں شاعر کی قوتِ متخیلہ کی داد دینے کے ساتھ ساتھ اپنے مضمحل اعصاب کا بھی اندازہ لگانا ہو گا جو خوشخبری کی الرجی کا شکار ہیں۔ شاعر کہہ رہا ہے کہ شہد کی مکھی کو باغ میں نہ جانے دیجئے کہ وہاں سے پھولوں کا رس چوس کر آئے گی، اِس سے شہد تیار ہو گا جس میں سے موم الگ کیا جائے گا۔ اِس موم سے شمع روشن ہو گی جس پر پروانے اپنی جان چھڑکتے رہیں گے۔ ہمارے عہد کے دانشوروں اور تجزیہ کاروں نے بھی موسوم وسوسوں اور اندیشوں کا ایک ایسا جال بُنا ہے کہ اب کوئی شہد کی مکھی باغ میں نہیں جا سکتی۔
ہماری قومی زندگی کے گزشتہ چند عشرے معاشی بدحالی میں گزرے ہیں جن میں اقتصادی ترقی کی شرح 2فی صد سے بھی کم رہ گئی تھی۔ گزشتہ تین برسوں میں ہماری معیشت میں قابلِ ذکر اُبھار پیدا ہوا ہے اور معروف برطانوی ہفت روزے ’اکانومسٹ‘ نے پاکستان کے معاشی اور مالیاتی پہلوؤں کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد پیش گوئی کی ہے کہ اِس سال تمام اسلامی ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی معاشی ترقی سب سے تیز رہے گی۔ اِس میں یہ بھی لکھا ہے کہ 5.3فی صد شرح نمو انڈونیشیا، ملائیشیا اور مصر سے کہیں آگے ہے اور یوں وہ معاشی ترقی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں اہم اور طاقتور ملک بن گیا ہے۔ اِس حقیقت پسندانہ تجزیے پر ہماری قوم کے اندر خوشی کی لہر دوڑ جانی چاہئے تھی، مگر ہمارے جو لوگ خوشخبری کی الرجی کے مریض ہیں، وہ اِس معاشی صورتحال کو مایوس کن اور مصنوعی قرار دے رہے ہیں۔ بلاشبہ ہماری معیشت کے بعض پہلو باعثِ تشویش ہیں کہ ہماری برآمدات کم ہوتی جا رہی ہیں اور قرض بڑھتے جا رہے ہیں، مگر قومی سطح پر جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، اُن سے توانائی کے بحران پر قابو پانے میں بڑی مدد ملے گی اور سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہونے سے روشن امکانات اُبھرتے جا رہے ہیں۔ اقتصادی راہداری کا منصوبہ جس سے پورے خطے میں ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا اور دنیا کی بڑی معاشی طاقتیں اِس منصوبے میں شراکت داری کی پیش کش کر رہی ہیں، یہ پاکستان میں غربت اور پسماندگی کے خاتمے کا ایک تاریخی موقع ہے، مگر ہمارے درمیان ایسے عناصر موجود ہیں جو اِس کی تعمیر میں طرح طرح کے رخنے ڈال رہے اور نت نئے اعتراضات اُٹھا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے اندر ایک بیمار ذہنیت پرورش پا رہی ہے جو اُجالوں کے بجائے اندھیروں میں سکون محسوس کرتی ہے۔
حال ہی میں 42اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد قائم ہونے اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی فوجی کمان سنبھالنے کی خبر آئی ہے جس نے ہمارے سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ایک طوفان اُٹھا دیا ہے۔ اِس اقدام کے روشن پہلوؤں پر اظہارِ خیال کرنے کے بجائے اِس کے ممکنہ تاریک پہلو موضوعِ گفتگو بنے ہوئے ہیں۔ مسلم ملکوں کے اِس فوجی اتحاد کا اعلان 2015ء میں ہی ہو گیا تھا اور وزیراعظم نوازشریف کی مشاورت سے یہ امر بھی طے پا گیا تھا کہ جنرل راحیل شریف اِس فوجی اتحاد کی کمان سنبھالیں گے جنہوں نے دہشت گردی کی کمر توڑنے میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ سعودی اخبارات میں تفصیل شائع ہو چکی ہے کہ جنرل راحیل شریف نے گراں بار ذمہ داریاں سنبھالنے سے پہلے چند شرائط پیش کی تھیں کہ انہیں مصالحت کاری کا اختیار حاصل ہو گا اور وہ کسی ایک ملک یا سلطنت کے مفادات کے پابند نہیں ہوں گے۔ یہ منصوبہ جن ارتقائی مراحل سے گزر رہا ہے، اِس میں وسعت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ شروع میں صرف 34ممالک نے فوجی اتحاد میں شامل ہونے کی ہامی بھری تھی جبکہ اب یہ تعداد 42تک پہنچ گئی ہے۔ انڈونیشیا، ترکمانستان اور آذربائیجان نے بھی شمولیت کا عندیہ دیا ہے۔ شام کی رکنیت عرب لیگ نے بھی معطل کر رکھی ہے، وہاں کی صورتِ حال جوں جوں بہتر ہو گی، وہ بھی اِس اتحاد کا حصہ بن سکے گا۔ ایران کو سعودی عرب نے آغاز ہی میں شرکت کی دعوت دی تھی، مگر یمن کی خانہ جنگی کے باعث کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ بے شک اُمتِ مسلمہ میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ کیا ہمیں اُن کی بنیاد پر باہمی اتحاد کی تمام کوششیں ترک کر دینی چاہئیں۔ ہمیں اُمید رکھنی چاہئے کہ فوجی اتحاد کا جو عظیم الشان ہیڈ کوارٹر ریاض کے مضافات میں تعمیر ہو رہا ہے، اِس میں اختلافات ختم کرنے پر بھی تحقیق کی جائے گی اور سنی شیعہ آویزش کو باہمی اتحاد میں بدلنے کے لئے سفارشات مرتب کی جائیں گی۔ سعودی عرب کی قیادت کو یقیناً احساس ہو گیا ہو گا کہ اِسے دانش مندی، بالغ نظری اور عالی ظرفی سے کام لینا ہو گا۔ تاریخ نے ہمیں ایک نادر موقع عطا کیا ہے۔ اِس کا خیر مقدم کرنا اور صدیوں پرانے تنازعات طے کرنے کے لئے اِسے بروئے کار لانا چاہئے۔ اپنے ربِ کریم کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا جائے کہ اِس نے پاکستان کو بہت بڑا اعزاز عطا کیا ہے جو ہمارے درخشندہ مستقبل کا عکاس ثابت ہو گا اور خوشخبری کی الرجی کا مستقل علاج بھی۔


.
تازہ ترین