• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں نے اپنے 6جون 2016ء کے کالم میں دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت کے حصول پر زور دیا تھا اور پھر 10ستمبر 2016ء کو شائع شدہ کالم میں ایک جنرل کی تقریر سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کے پاس دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت موجود ہے، 9جنوری 2017ء کو میزائل بابر 3کے کامیاب تجربہ کے بعد اِس کی تصدیق ہو گئی کہ پاکستان دُنیا کا ساتواں ملک ہے جس کے پاس دوسرا ایٹمی حملہ کی صلاحیت موجود ہے، پانچ ایٹمی ممالک جنہوں نے N5کے نام سے کلب بنایا اور یہ عزم کیا کہ وہ کسی اور کو ایٹمی طاقت کا حامل کا ملک نہیں بننے دیں گے مگر 1974ء میں بھارت ایٹمی طاقت بنا اور 1983ء میں پاکستان، تاہم پاکستان نے اس کا اظہار 1998ء میں ہی کیا جبکہ بھارت ایسا 1974ء میں کر چکا تھا، ایٹمی طاقت کے حصول کے بعد خطے میں سوچ و فکر شروع ہو جانا چاہئے تھی کہ خطہ کو کس طرح ایٹمی عذاب سے بچایا جائے مگر اس کے برعکس بھارت نے پاکستان کو دھمکانے، ڈرانے، اشتعال دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، کوئی نہ کوئی نئی بات، نئی دھمکی اور نیا ہتھیار سامنے لانے لگا تاکہ پاکستان کو مرعوب کیا جا سکے۔ اس نے کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن بنا ڈالا کہ پوری قوت سے آٹھ کمزور مقامات سے پاکستان پر حملہ کر کے اُس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے۔ پاکستان نے جواباً محدود پیمانے کی تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنالئے اور میزائل بھی ایسے بنائے جو کم فاصلے پر مار کر سکیں۔ اِس کو Tactical War Heads کہا جاتا ہے جو امریکہ اور روس کے بعد صرف پاکستان کے پاس ہیں، اس طرح بھارت کی کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن کو ناکام بنادیا، اِس کے بعد اس نے ایٹمی آبدوز اری ہانت بنا ڈالی اور اس سے سات سو کلومیٹر کا ایٹمی اسلحہ لے جانے کی صلاحیت والا میزائل داغ کر بھارت کو دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت حاصل کرنے والا ملک بنا ڈالا اور مغرب نے چپ سادھے رکھی تو تقریباً سات ماہ بعد پاکستان نے گہرے پانی میں موجود آبدوز سے زمین پر حملہ کرنے والا بابر 3میزائل کامیابی سے داغا اور بھارت کے ہم پلہ بن گیا۔ دوسرے ایٹمی حملے کی اہمیت یہ ہے کہ اس صلاحیت کی روس اور امریکہ کے پاس ہونے کی وجہ سے 71سال سے کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی، کیونکہ دونوں ممالک جانتے ہیں کہ اگر ایک طرف سے حملہ ہوا تو دوسرا بھی نہیں بچے گا۔ اس صلاحیت کا حامل وہ ملک بن جاتا ہے جو سمندر سے زمین پر ایٹمی حملہ کرسکے، اس کے یہ معنی ہوئے کہ دشمن زمین پر ایٹمی حملہ کرکے سب کچھ ختم کر دے تو سمندر میں موجود ایٹمی آبدوز حملہ آور ملک کی سرزمین کو تباہ کر دے۔ اگرچہ بابر 3میزائل کا ہدف صرف 450کلومیٹر بتایا گیا ہے مگر ہدف تو گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے، یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ پاکستان کے ہتھیار بھارت کی جارحیت کو روکنے کیلئے بنائے جاتے ہیں، اس لئے ہمیں بین البراعظمی میزائل بنانے کی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ بھارت نے اگنی 4ساڑھے چار ہزار کلومیٹر اور اگنی 5کو 5ہزار کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کا صلاحیت کا اظہار کیا ہے۔ جس کا یورپ کو نوٹس لینا چاہئے۔ پاکستان کو اس کی ضرورت نہیں، اگرچہ چین نے حال ہی میں ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر مغرب اور سلامتی کونسل نے بھارت کو ایسے میزائل بنانے سے نہ روکا تو وہ پاکستان کو یہ صلاحیت دیدے گا۔
پاکستان نے اگرچہ دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت حاصل کر لی مگر ایک ذمہ دار ملک کی حیثیت سے اُس نے کمانڈ اور کنٹرول کو ابھی نیوی کے افسران کو نہیں دیا بلکہ یہ اختیار وزیراعظم اور کمانڈ اتھارٹیز کے پاس ہے جبکہ بھارت نے یہ اختیار بحریہ کے کم تر درجہ کے افسران کو دیدیا ہے، جس سے خطرات بڑھ گئے ہیں، اس کے علاوہ پاکستان بحریہ کے پاس رابطے کا جو نظام موجود ہے وہ جدید ہے اور بہت چھوٹی فریکوئنسی (VLF) کے ذریعے رابطہ رکھ سکتا ہے اور کسی مداخلت کو بھی روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پاکستان نے اپنی اسٹرٹیجک اثاثہ جات کا تحفظ فول پروف بنایا ہے جس کی تعریف مغرب کے سائنسدان اکثر مواقع پر کر چکے ہیں۔ پاکستان بحریہ ہر وقت پیٹرول کرتی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس نے بھارتی آبدوز کو اپنے معاشی خطے کے قریب آنے پر دیکھ لیا۔ یہ معاشی زون ہماری بحری حدود سے کافی آگے ہوتا ہے اور اس آبدوز کا پتہ لگانا پاکستان بحریہ کی صلاحیتوں اور مستعدی کا مظہر ہے۔ پاکستان اور فرانس کے درمیان بحری تعاون جاری ہے اس سے پاکستان نے آگسٹا نامی آبدوزیں حاصل کی ہیں جو اس وقت کی سب سے جدید آبدوزیں تھیں۔ فرانس کو معلوم ہے کہ پاکستان اپنے تحفظ کیلئے اقدامات کر رہا ہے، اس لئے پاکستان اور فرانس کے درمیان بحری تعاون میں کوئی خلل نہیں پڑے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان تعاون جاری ہے اور اس میں روز بروز پیش رفت ہو رہی ہے، پاکستان چین سے آٹھ آبدوزیں خرید رہا ہے، اس لئے پاکستان، چین، ترکی، قازقستان اور بیلاروس کے درمیان تعلقات اچھے رہیں گے کیونکہ یہ ممالک پاکستان کی حمایت اصولوں پر کر رہے ہیں اور اس اصول کے تحت وہ پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کو یقینی بنانے کی سعی کریں گے۔
پاکستان بھارت کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہے، وہ صرف اپنے ملک کی سرزمین اور اپنے عوام کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھاتا ہے اور خطے میں توازن قائم رکھنا چاہتا ہے۔ سات ماہ سے خطہ دوسرے ایٹمی حملہ کی صلاحیت کے حوالے سے عدم توازن کا شکار ہوگیا تھا، سو وہ اب پھر سے متوازن ہو گیا۔ دفاع اور اسلحہ کے حوالے سے پاکستان نے بھارت کی بالادستی قائم نہیں ہونے دی اور اُس کو روایتی ہتھیاروں میں بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے تاہم معاشی اعتبار سے بھی پاکستان نے جو اسٹرٹیجک قدم چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے اٹھایا ہے اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان معاشی توازن قائم ہو جائے گا۔ مغرب کے ایک مصنف اینڈریو اسمال نے گوادر میں 14دسمبر 2016ء کی کانفرنس میں کہا کہ یہ اقتصادی راہداری پاکستان اور بھارت کے درمیان معاشی ناہمواری اور عدم توازن کو متوازن کر دے گا اور اس کی مخالفت کرنے والے ممالک اپنا وقت اور اپنا سرمایہ ضائع کر رہے ہیں، اصل میں یہ اقتصادی راہداری سب کے مفاد میں ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارت کا معاشی طور پر ہم سے زیادہ مضبوط ہونا طے شدہ تھا مگر اقتصادی راہداری نے بھارت کی اس بالادستی کو ختم کر دیا ہے۔
پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہونے جا رہا ہے اور دفاعی اعتبار سے وہ بھارت پر کئی حوالوں سے بالادستی رکھتا ہے مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ دفاعی میدان میں ہر وقت تبدیلیاں آتی رہتی ہیں اور پاکستان ہر لحاظ سے اپنے آپ کو اُن سے باخبر اور اُن صلاحیتوں کے حصول میں کوشاں اور مستعد رہنا ہوگا، اس سلسلے میں یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر مستحکم رہے اور عدم استحکام کا شکار کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنا دے۔


.
تازہ ترین