• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر اللہ رکھا مرحوم ایک زمانے میں میرے ہمسائے تھے مرحوم ان کا تخلص نہیں تھا بلکہ انہوں نے یہ لفظ نام کا حصہ محض اس لئے بنا رکھا تھا تاکہ انہیں اور ان کے مریضوں کو موت ہمیشہ یاد رہے ۔مرحوم کے قریبی دوستوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایم بی بی ایس کی ڈگری اوکاڑہ یونیورسٹی سے لی تھی جو ان کے والد گرامی نے ڈھائی مرلے کی وسیع و عریض عمارت میں قائم کر رکھی تھی !
ڈاکٹر صاحب مریض کو دیکھتے ہی مریض کا اتا پتا بتا دیتے تھے اس معاملے میں انہیں یدطولیٰ حاصل تھا میری موجودگی میں ایک مریض ان کے پاس آیا، ڈاکٹر صاحب نے ایک نظر اسے دیکھا اور کہا ’’میرا خیال ہے تم بیمار ہو‘‘ اور پھر انہوں نے فاتحانہ نظروں سے میری طرف دیکھا کیونکہ وہ شخص واقعی بیمار تھا۔دوسرے مرحلے پر ڈاکٹر صاحب نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا اور مجھ سے مخاطب ہو کر پوچھا ’’کیا کشمیر کی صورتحال میں کوئی تبدیلی آئے گی ! میں نے جواب نہیں دیا تاکہ گفتگو کی صحیح تشخیص میں میری گفتگو رکاوٹ کا باعث نہ بنے وہ سمجھے شاید اس معاملے میں میری معلومات ناقص ہیں چنانچہ انہوں نے دوسرا سوال پوچھا ’’ بکرمنڈی میں بکروں کی قیمتیں کیسی جا رہی ہیں؟ مجھے ان کے سوال پر بہت غصہ آیا میں نے جھنجلاکر کہا ‘‘ آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ ’’بولے بخار ہے اس دفعہ ان کا مخاطب مریض تھا جو یقیناً اس حیرت انگیز تشخیص پر ڈاکٹر اللہ رکھا کی حکمت کا قائل ہو گیا ہو گا۔ڈاکٹر صاحب نے اسے دوا دی اور وہ ہنستا کھیلتا سیٹیاں بجاتا ہوا کلینک سے چلا گیا، ایک ہفتے بعد اس کے لواحقین اسے اسٹریچر پر ڈال کر ڈاکٹر صاحب کے پاس لائے لگتا تھا اس کا آخری وقت آ گیا ہے ڈاکٹر صاحب نے اس سے پوچھا ‘‘میں نے تمہیں جو دوا دی تھی وہ تم نے کس سے کھائی تھی‘‘ اس نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا ’’دودھ سے ‘‘ ڈاکٹر اللہ رکھا نے یہ سن کر اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا ’’میں بھی کہوں تمہاری یہ حالت کیوں ہو گئی ہے، دوا دودھ سے نہیں پانی سے کھانا تھی !‘‘علاج میں یہ نزاکتیں ڈاکٹر اللہ رکھا ہی کا خاصہ تھا !
ڈاکٹر اللہ رکھا انسانوں کے علاوہ جانوروں کا علاج بھی پوری سنجیدگی اور مہارت سے کرتے تھے اکثر اوقات دوائیاں غلط ملط ہو جاتیں یعنی غلطی سے انسانوں کی دوا کسی جانور کو اور جانور کی دوا کسی انسان کو دے ڈالتے، حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب کبھی ایسا ہوا مریض ٹھیک ہو گیا، ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں ان کی پوری زندگی میں جتنے مریض بھی شفایاب ہوئے وہ صرف اسی صورت میں ہوئے جس کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے ۔
’’ڈاکٹر اللہ رکھا صرف طب اور حکمت ہی میں مہارت نہیں رکھتے تھے بلکہ سینٹری کا کام بھی جانتے تھے میرے سوئی گیس کے چولہے اور نلکا وغیرہ ڈاکٹر صاحب ہی ٹھیک کرتے تھے اگر کبھی گٹر میں کوئی رکاوٹ آ جاتی تو یہ ڈاکٹر صاحب کی عظمت تھی کہ اس رکاوٹ کو دور کرنے میں بھی انہوں نے کبھی عار محسوس نہیں کی چنانچہ ہمارے محلے میں ڈاکٹر صاحب کی وجہ سے صفائی کی حالت بہت مثالی تھی ‘‘
وہ تو ایک بدباطن عطائی نے ایک دن ان کے کان میں یہ بات کہہ ڈالی کہ اگر محلے میں صفائی کا نظام اسی طرح بہتر رہا تو لوگ بیمار نہیں ہوں گے اور اگر وہ بیمار نہیں ہوں گے تو ہم تم کھائیں گے کہاں سے ! بس اس دن سے ڈاکٹر صاحب نے اس کام سے ہاتھ کھینچ لیا بلکہ دو ایک دفعہ تو یوں بھی ہوا کہ محلے والوں نے اصرار کیا، تو انہوں نے ٹھیک کرنے کی بجائے ڈکا اور زیادہ پھنسا دیا۔ ڈاکٹر اللہ رکھا مرحوم حکمت اور سینٹری کے حکام کے علاوہ ایک اخبار میں کالم بھی لکھتے وہ خود کو کالم نگار کہتے تھے مگر لوگ انہیں گالم قرار دیتے تھے کیوں کہ ان کے کالم میں گالیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا اور یہ گالیاں وہ انہیں نکالتے تھے جو ان کی حکمت اور سینٹری کے کاموں میں مہارت سے انکاری ہوتے تھے اور یا پھر ان کو جو ان کی کالم نگاری کو ’’گالم نگاری ‘‘قرار دیتے تھے، آخری عمر میں مرحوم نے داڑھی رکھ لی تھی اور پگڑی باندھنا شروع کر دی تھی، اب وہ گالیاں بہت دیتے تھے بلکہ منہ زبانی ہر ایک کو ’’تباہ کر دوں گا برباد کر دوں گا کی دھمکیاں دیتے تھے لیکن انسان فانی ہے وہ خدا کی زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتے ہوئے خواہ جتنے بڑے بڑے دعوے کرے ایک دن خود اس کے فانی جسم نے تباہ ہو جانا ہے چنانچہ ڈاکٹر اللہ رکھا بھی ایک دن ایک عام آدمی کی طرح فوت ہو گئے ،ڈاکٹر صاحب کی وفات کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہر انسان نے فوت ہونا ہی ہوتا ہے ۔مگر دوسری اور فوری وجہ اپنے استاد کی نصیحت پر عمل نہ کرنا تھی۔ استاد نے پیش گوئی کی تھی کہ اللہ تمہارے ہاتھ میں شفا دےگا اور نصیحت یہ کی تھی کہ اپنی دوا خود کبھی نہ کھانا، استاد کی پیش گوئی تو متنازع رہی مگر نصیحت پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ سامنے آگیا رات کو طبیعت خراب ہوئی، انہوں نے اپنا مرض خود تشخیص کیا اور اپنی ہی تجویز کردہ دوا کھائی اور سو گئے تھوڑی دیر بعد پتہ چلا کہ ہمیشہ کے لئے سو گئے ہیں، اہل محلہ نے ان کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں شرکت کی ان میں سے بیشتر لوگ جنازے کے آگے آگے بھنگڑا ڈال رہے تھے ۔


.
تازہ ترین