• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ملک بھر میں آج کل ہر طرف تبدیلی کی باتیں ہو رہی ہیں وفاقی حکومت سی پیک کو گیم چینجر کہہ رہی ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ سی پیک کا منصوبہ دھرنوں اور اب پاناما لیکس میں ضائع کر دیا۔ 2013ء کے الیکشن میں تحریک انصاف نے جس تبدیلی کی بات کی تھی اس جماعت کو ایک صوبے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کے بعد عملی طور پر اس صوبے میں تبدیلی کے لئے سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت تھی مگر تحریک انصاف نے یہ سارا وقت اور توانائیاں نواز حکومت گرانے میں صرف کر دیں۔ اب شاید تحریک انصاف کی قیادت کو احساس ہو گیا ہے کہ ہمیں دھرنوں اور نواز حکومت گرانے کی سیاست کرنے کی بجائے صوبہ خیبر پختونخوا میں حقیقی تبدیلی کے لئے کام کرنا چاہئے تھا۔ خیبر پختونخوا حکومت کے اشتہاروں میں اس بات کو فوکس کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت اداروں کو مضبوط بنا رہی ہے۔ پولیس سمیت دیگر تمام محکموں میں کرپشن اور سفارش کا خاتمہ کیا جا چکا ہے۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اس بات کا اندازہ خود بخود ہو جائے گا جب ایک واقعہ میں آپ سے شیئر کروں گا۔ چندروز قبل مجھے امریکہ کے شہر بالٹی مور میں مقیم میرے ایک دوست، جو ان دنوں پاکستان آئے ہوئے ہیں، نے مجھے بتایا کہ میری گاڑی چوری ہو گئی ہے اور یہ واقعہ گوجرانوالہ میں اس وقت پیش آیا جب میرا بیٹا گاڑی ایک شاپنگ مال کے باہر چھوڑ کر اندر گیا اور واپس آیا تو گاڑی وہاں موجود نہ تھی جس کے فوراً بعد اس نے 15پر کال کی اور رپورٹ کروا دی۔ میں اور میرا بیٹا پولیس اسٹیشن پہنچ گئے خوش قسمتی سے ایس ایچ او بھی پولیس سٹیشن میں موجود تھا اس نے ہماری رپورٹ درج کروا دی اور یقینی دہانی کرائی کہ جلد ہی آپ کی گاڑی بازیاب کرونے کے لئے بھرپور کوشش کی جائے گی۔ جب ہم تھانے سے باہر نکل رہے تھے تو ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ آپ کی گاڑی میں آپ کا یا آپ کے کسی دوست کا نمبر یا کوئی وزنٹنگ کارڈ تھا میں نے جواب دیا میرا تو نہیں شاید کسی دوست کا وزنٹنگ کارڈ یا ٹیلی فون نمبر میری گاڑی میں ہو جس پر اس پولیس اہلکار نے کہا کہ اگر کسی کا رابطہ نمبر گاڑی سے مل گیا تو چور جلد آپ سے رابطہ کر لیں گے یہ تمام واقعہ سننے کے بعد میں نے اپنے دوست کو مشورہ دیا کہ وہ اس واقعے کی ایف آئی آر درج کروا دے۔ تین روز کے بعد میرے دوست کا فون آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ مجھے ایک نمبر سے فون آیا ہےکہ آپ کی گاڑی میرے پاس ہے اور میں نے یہ خریدی لی ہے اگر آپ کو چاہئے تو آپ پشاور کے آس پاس آ کر مجھ سے لے سکتے ہیں۔ گاڑی کتنے میں دوں گا کل صبح فون کر کے بتائوں گا۔ معلوم ہوا وہ چور انتہائی پروفیشنل ہے کیونکہ اس نے کال کمپیوٹر کے ذریعے کی تھی اس کال کے ذریعے اس تک پہنچنا آسان نہیں تھا؟ اگلے روز دوپہر 12بجے کے قریب میرے دوست شان مصطفیٰ کا دوبارہ فون آیا اور اس نے بتایا کہ جس کے پاس میری گاڑی ہے اس نے گاڑی کے عوض ساڑھے تین لاکھ روپے معاوضہ مانگا ہے اور کل دوبارہ فون کرنے کو کہا ہے میں نے کہا کہ اس سارے مسئلے کو پولیس کے سامنے رکھتے ہیں مگر میرا دوست نہ مانا۔ اس کا مؤقف تھا کہ اگر چور ڈھائی لاکھ روپے تک گاڑی دینے پر رضا مند ہو جائے تو میں یہ رقم دے کر گاڑی لینا چاہوں گا نہ کہ پولیس اسٹیشن کے چکر لگانا۔ اگلے روز ہی میرے دوست نے بتایا کہ چور نے مجھے پشاور بلایا ہے اور کہا ہے کہ آپ پشاور کے کسی مقامی ایسے بندے کا نام بتائیں جس کے ساتھ میں ڈیل کر سکوں میں نے دریافت کیا کہ ڈیل کیا ہوئی؟ جس پر میرے دوست نے بتایا کہ 2لاکھ 65ہزار میں معاملات طے پا گئے ہیں برائے مہربانی تم میرے ساتھ چلو اور وہاں مقامی پشاور کے رہنے والے کسی شخص کا بندوبست بھی کر دو تا کہ میں اپنی گاڑی واپس لا سکوں۔ میں نے پشاور میں اپنے ایک دوست کو فون کر کے سارا واقعہ بیان کیا شام تک ہم پشاور پہنچ چکے تھے اور چور کے فون کا انتظار کر رہے تھے۔ رات 11بجے چور کا فون آیا اور اس نے ہمیں کہا کہ مجھے مقامی پشاور کے بندے کا فون نمبر دیدیں، میں اس سے بات کر لوں گا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس نے میرے پشاور والے دوست کو فون کر کے کہا کہ آپ صبح گیارہ بجے تخت بھائی آ جائیں اور وہاں پیسے دیکر گاڑی لے جائیں۔ ہم اگلے روز صبح گیارہ بجے پشاور سے تقریباً70 کلومیٹر دور تخت بھائی کے مقام پر پہنچے تو گیارہ بجنے کے فوراً بعد چور کا میرے پشاور والے دوست کو فون آیا اور اس نے پشتو میں اس کے ساتھ بات کی۔ بعد میں میرے دوست نے بتایا کہ آپ یہاں کسی کار ڈیلر کو جانتے ہیں اس کے پاس جا کر میرے فون کا انتظار کریں اور پھر میری اس سے بات کروانا۔ فون کے فوراً بعد ہم مقامی کار ڈیلر کے پاس چلے گئے اور اس کے فون آنے پر کار ڈیلر سے بات کروائی اور یہ طے ہوا کہ کار ڈیلر کو ہم رقم دے دیں گے اور اس کی بتائی ہوئی جگہ سے گاڑی لے جائیں گے کار ڈیلر نے ہم سے یہ ڈیل کروانے کی الگ سے 10ہزار روپے کمیشن بھی لی۔ کچھ دیر کے بعد چور کا دوبارہ فون آیا اور اس نے بتایا کہ مین ہائی وے پر پٹرول پمپ کے سامنے آپ کی گاڑی کھڑی ہے وہاں سے اپنی گاڑی لے لیں۔ میرے پشاور کے مقامی دوست نے بتایا کہ اب کسی بھی ایجنسی میں ایسا کام ناممکن ہے کیونکہ پاکستان آرمی نے ایجنسیز میں مکمل کنٹرول کر رکھا ہے اور وہاں ایسا کام ہونا ممکن ہی نہیں۔ اب یہ سارا کام پشاور کے اردگرد علاقوں میں ہوتا ہے۔ اس تمام صورتحال سے اس بات کا اندازہ خود ہی لگایا جاسکتا ہے کہ ’’کے پی میں تبدیلی‘‘ آ چکی ہے۔


.
تازہ ترین