• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دو سال قبل 16دسمبر 2014کو آرمی پبلک اسکول پشاور کے روح فرسا واقعہ کے بعد فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اب خصوصی اختیارات کی حامل ان عدالتوں کی مدت پوری ہو گئی ہے تاہم اس وقت ملک کے سنجیدہ قومی و سیاسی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا موجودہ حالات میں فوجی عدالتوں کی مزید ضرورت ہے یا پھر موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنا کر ہی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے؟ 21ویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ کے تحت پارلیمنٹ کی منظوری سے 6جنوری 2015کو فوجی عدالتیں بنائی گئی تھیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں خصوصی اختیارات کی حامل ان عدالتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دو سال پہلے فوجی عدالتیں ایک ایسے وقت میں قائم کی گئی تھیں جب ملک بھرمیں دہشت گردی عروج پر تھی۔ دہشت گردی کے ان گنت واقعات سے نمٹنے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے فوجی عدالتوں کے ذریعے مجرموں کو جلد سزائیں دی گئیں۔ اب چونکہ ملکی منظرنامہ تبدیل ہو چکا ہے۔ کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں حالات بڑی حد تک معمول پر آ چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فوجی عدالتیں دوبارہ بننی چاہئیں یا نہیں؟ حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام(ف) اور تحریک انصاف میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ خود پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی جگہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بنانی چاہئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارا عدلتی نظام کمزور ہے جس کا دہشت گرد اور سنگین جرائم میں ملوث خطرناک مجرم فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اب ہمیں ملک میں مستقل امن وامان کے لئے مضبوط اور دیرپا اقدامات کرنا پڑیں گے۔ عارضی بنیادوں پر اٹھائے گئے اقدامات سے خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ فوجی عدالتیں ایک عارضی حل تو ہیں لیکن یہ کسی مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ اسی طرح فوج اور رینجرز بھی ہنگامی حالات میں امن وامان کے لئے طلب کی جاتی ہے۔ آخرکار سول اداروں کو ہی انتظامی معاملات سنبھالنا ہوتے ہیں۔ دوسال قبل جب فوجی عدالتیں بنائی گئی تھیں اُس وقت بھی مختلف سیاسی حلقوں کی طرف سے تنقید کی گئی تھی۔ فوجی عدالتوں کی دوسالہ آئینی مدت کے دوران 274مقدمات کو نمٹایا گیا۔تحفظات کے باوجود ان کی کارکردگی اچھی رہی ہے مگر اس کو جواز بنا کر ان عدالتوں کی معیاد مزید نہیں بڑھانی چاہئے، اس سے ہمارا پورا عدالتی نظام متاثر ہو گا۔ ہمیں مرض کی درست تشخیص کرنا چاہئے۔ امن وامان کو مزید بہتر بنانے کے لئے پورے ملک میں پولیس اور موجودہ عدالتی نظام کو بہتر بنا کر مسائل کاحل نکالا جا سکتا ہے۔ پولیس کو غیرسیاسی ادارہ بناکر اُس کی کارکردگی بڑھائی جا سکتی ہے۔ عدلیہ میں پراسیکیوشن کا نظام انتہائی سست ہے۔ اس میں بہتری لا کرانصاف کے تقاضے پورے کیے جاسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نوازشریف کو چاہئے کہ وہ سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فوجی عدالتوں کے بارے میں فیصلہ کریں کیونکہ یہ ایک بڑا اہم اور حساس معاملہ ہے۔
قارئین کرام اب کچھ تذکرہ ہو جائے میری کتاب ’’گردش ایام‘‘ کا! پاکستانی سیاست اور عالمی ایشوز پر روزنامہ جنگ میں شائع ہوانے والے میرے کالموں اور تجزیوں پر مشتمل کتاب ’’گردش ایام‘‘ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے اور ان شاءاللہ جلد یہ کتاب منظر عام پر آجائے گی۔ میرے خیال میں ایک اچھا لکھاری بننے کے لئے ہماری نوجوان نسل کو علامہ اقبالؒ کی بامقصد شاعری اور سید مودودیؒ کی شاندار نثر ضرور پڑھنی چاہئے کیونکہ آپ کا مطالعہ اور مشاہدہ جتنا بہتر ہو گا، اتنا ہی آپ کی تحریر میں نکھار آئے گا۔ میری کتاب ’’گردش ایام‘‘ کے لئے خصوصی طور پر ملک کے نامور قلمکاروں اور ممتاز شخصیات ڈاکٹر عبدالقدیر خان، سینیٹر سراج الحق، بانو قدسیہ، الطاف حسن قریشی، ڈاکٹر اجمل نیازی، عطاءالرحمٰن، حافظ شفیق الرحمٰن، جبار مرزا، علامہ عبدالستار عاصم، اشتیاق گھمن، ارشد نسیم بٹ، حافظ عبدالرزاق صادق، مفتی وحید قادری اور ملک مقبول احمد نے اپنے اہم پیغامات بھجوائے اور نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ میں ان تمام خواتین وحضرات کا بیحد ممنون ہوں کہ انہوں نے میری کاوش کو پذیرائی بخشی۔ یہ میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں ہے۔ میں نے پہلے پہل تعلیمی دنیا کے مسائل اور ایشوز پر لکھنا شروع کیا اور بعد ازاں ملکی وبین الاقوامی معاملات پر بھی قلم آزمائی کی۔ مقام شکر ہے کہ میرے یہ کالم اور مضامین سالہا سال سے روزنامہ جنگ میں شائع ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر میرے کالموں کو دنیا بھر میں موجود اردو دوست حلقوں کی جانب سے پذیرائی ملتی رہی، جس پر میں اپنے تمام احباب اور قارئین کا دلی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میرے احباب اور قارئین کا اصرار تھا کہ ’’گردش ایام‘‘ کو کتابی شکل میں لایا جائے اور وہ کام اب اللہ کے فضل وکرم اور اپنے قریبی احباب کی دعائوں سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے پیغام فاروق چوہان کا ’’گردش ایام‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ جناب محمد فاروق چوہان شستہ نگار قلمکار ہیں۔ ان کے کالموں کا مرکزی خیال پاکستان، اسلام اور انسانی معراج ہے، ان کے کالموں کو ہم روزمرہ اخباری ڈائری تو نہیں کہہ سکتے مگر ایک باخبر رپورٹر کا رنگ ان کی تحریر میں غالب ہے۔
اسی طرح سینیٹر سراج الحق کا بھی خصوصی پیغام میں کہنا تھا کہ محمد فاروق چوہان ایک منجھے ہوئے تجزیہ کار ہیں۔ اُن کی کتاب کی اشاعت مثبت اور جاندار تجزیوں کا منہ بولتا ثبوت، ملک کی حقیقی صورتحال کی آئینہ دار اور قوم کی حقیقی رہنمائی کا عنوان ہے۔ یہ صاحبانِ علم ودانش کے لئے ایک حوالہ اور قوم کے لئے نشانِ منزل ہے۔ الطاف حسن قریشی اپنے پیغام میں لکھتے ہیں کہ جناب فاروق چوہان کے کالم کتابی شکل میں دیکھ کر مجھے بے حد خوشی ہوئی ہے کہ وہ اہل تحقیق کے لئے ایک بیش قیمت سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے حالات حاضرہ پر خیال آرائی کا نہایت موثر اسلوب اپنایا ہے جس میں سادگی بھی ہے اور کشش بھی بلا کی ہے۔ ڈاکٹر اجمل نیازی میری کتاب کے بارے میں کہتے ہیں کہ میں کالم نگاری کو ’’ظالم نگاری‘‘ کہتا ہوں مگر محمد فاروق چوہان کے کالموں میں سلامتی ایک وصف کی طرح موجود ہے۔ اب کالم میں ’’تنگی داماں‘‘ کی کیفیت نظر آ رہی ہے۔ ان شاءاللہ اپنی اس تخلیقی کاوش ’’گردش ایام‘‘ سے متعلق مزید اہم شخصیات کے پیغامات کا تذکرہ پھر کبھی میں کروں گا۔


.
تازہ ترین