• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاپتہ افرادکا معاملہ، وزیراعظم اور وزیرداخلہ ذمہ دار نہیں، فرحت بابر

کراچی(ٹی وی رپورٹ)پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابرنے کہا ہے کہ لاپتہ افرادکے معاملہ پر وزیراعظم اور وزیرداخلہ ذمہ دار نہیں ہیں، لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہے، کچھ ایسی قوتیں ہیں جو سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کو کام نہیں کرنے دیتی ہیں، سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر چارٹر آف ہیومن رائٹس پر اتفاق کریں، تمام سیاسی جماعتیں مل کر قومی سلامتی کے دائرہ کار کا تعین کریں،پاناما کیس میں جج صاحب نے جو باتیں کیں ان سے اتفاق ہے۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ بھی شریک تھے جبکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ اور چیئرپرسن ڈیفنس آف ہیومن رائٹس آمنہ مسعود جنجوعہ سے بھی گفتگو کی گئی۔ بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ لوگوں کو لاپتہ کرنا خلاف آئین اور خلاف اسلام ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ پہلے سے بہتر ہوا ہے، سائبر کرائم کا قانون ایسا نہیں کہ کسی کو تنقید کرنے پر پکڑلیا جائے گا،۔عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ موجود ہے مگر شدت میں کمی آئی ہے۔ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔فرحت اللہ بابر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افرادکے معاملہ پر وزیراعظم اور وزیرداخلہ ذمہ دار نہیں ہیں، لاپتہ افراد کا معاملہ سیاسی جماعتوں سے بالاتر ہے، کچھ ایسی قوتیں ہیں جو سیاسی جماعتوں اور پارلیمان کو کام نہیں کرنے دیتی ہیں، ہم لوگ اپوزیشن میں تو لاپتہ افراد کا معاملہ اٹھاتے ہیں مگر حکومت میں آکر بات نہیں کرپاتے ہیں، لاپتہ افراد سے متعلق تمام سیاسی جماعتوں کو لائحہ عمل طے کرنا ہوگا، سیاسی جماعتیں مل بیٹھ کر چارٹر آف ہیومن رائٹس پر اتفاق کریں جس میں پہلا معاملہ لاپتہ افراد کا رکھا جائے۔ فرحت اللہ بابر نے کہا کہ میں نے لاپتہ افراد کے معاملہ پر پارلیمنٹ میں بل پارٹی کے کہنے پر واپس لیا تھا، لاپتہ افراد کے معاملہ میں سپریم کورٹ اور دو نوں بڑی سیاسی جماعتیں بے بس نظر آتی ہیں، وزیر داخلہ پارلیمان میں چار افراد کی گمشدگی کے معاملہ پر یقین دہانی کراتے ہیں مگر چند گھنٹوں کے اندر پانچویں شخص کو اٹھالیا جاتا ہے گویا پارلیمان کو پیغام دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے صورتحال بگڑتی جارہی ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ آزادیٴ اظہار کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اسلام آباد میں بلاگرز کو پکڑا گیا ہے جو اپنی رائے کا اظہار کررہے تھے، ہمارے ہاں قومی سلامتی اور مذہب کے نام پر قانون سے بالا ایکشن ہوجاتا ہے، آزادیٴ اظہار رائے کو ختم کرنے کیلئے مذہب کا استعمال کیا جاتا ہے، قومی سلامتی کا عنصر اتنا موثر ہوچکا ہے کہ دو وزراء اس پر وزارت سے فارغ ہوچکے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں مل کر قومی سلامتی کے دائرہ کار کا تعین کریں۔ پاناما کیس کے حوالے سے فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا  کہ وزیراعظم کے بیانات میں واضح تضادات موجود ہیں، نواز شریف چاہے عدالت سے بری ہوجائیں لیکن عوام کے ذہنوں میں وزیراعظم پر سوالیہ نشان آگیا ہے، وزیراعظم خود سوچیں اب وہ اس منصب پر رہنے کے لائق ہیں یا نہیں، بینظیر بھٹو کو تو اس بات پر بھی سزا ہوئی کہ انہوں نے اخبار میں آنے والے الزامات کی تردید نہیں کی تھی۔فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو خاموش نہیں سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، بلاول بھٹو نے چار مطالبات کی منظوری کیلئے پارلیمان کے اندر جدوجہد کی بات کی تھی، پارلیمان کے اندر ہم نے بل پیش کردیا ہے جو سینیٹ سے منظور ہوگیا ہے، پیپلز پارٹی پریس کلبز، بارا یسوسی ایشن اور دیگر جگہوں پر احتجاج کرے گی، کچھ جگہوں پر بلاول بھٹو کو بھی بلائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سیکھا ہے کہ نظام کو غیر مستحکم نہیں کرنا ہے، ہمارے احتجاج کے نتیجے میں اگر نواز شریف خود چلے جائیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، نواز شریف کا اب وزیراعظم کے عہدے پر رہنا غیر جمہوری، غیر سیاسی اور غیراخلاقی عمل ہے۔بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا کہ ہمارا مذہب، آئین اور بین الاقوامی چارٹر انسان کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے، لوگوں کو لاپتہ کرنا خلاف آئین اور خلاف اسلام ہے، لاپتہ افراد کا معاملہ پہلے سے بہتر ہوا ہے، سائبر کرائم کا قانون ایسا نہیں کہ کسی کو تنقید کرنے پر پکڑلیا جائے گا، سائبر کرائم کے قانون کے تحت چند کیس ہی رجسٹر ہوئے ہیں، پاکستان کے آئین میں بنیادی حقوق عالمی قوانین کے عین مطابق ہیں۔ظفر اللہ کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نظام کو توڑنا نہیں چاہتی ہے، پیپلز پارٹی ہمیں تنگ ضرور کرتی ہے لیکن یقین ہے کسی سازش کا حصہ بن کر ہماری ٹانگیں نہیں کھینچی گی، دیگر جو لوگ ہیں انہیں کچھ بے قراری ہے جن سے نمٹ رہے ہیں۔عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ موجود ہے مگر اس کی شدت میں کمی آئی ہے، بلوچستان میں فورسز، اغوا برائے تاوان اور بلوچ علیحدگی پسند لوگوں کو لاپتہ کرنے میں شامل ہیں، فورسز جن افراد کو بغاوت کے الزام میں اٹھاتی ہیں اگر وہ سنگین نوعیت کے جرائم میں شامل نہ ہوں تو علاقے کے معتبرین کے حوالے سے انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے، لاپتا افراد کا معاملہ مل بیٹھ کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ سلمان حیدر اپنے بلاگز میں حکومت کے منافقانہ رویوں پر کھل کر اظہار کرتے ہیں جو ان کی گمشدگی کی وجہ ہوسکتی ہے، بلوچستان میں لاپتہ افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کے پاس بلوچستان میں 2300لاپتہ افراد کے کیسز رجسٹرڈ ہیں، 2016ء میں 2015ء سے زائد افراد لاپتہ ہوئے ہیں، سال کے آغاز میں ہی لاپتا افراد کے آٹھ کیسز ہمارے پاس آئے ہیں۔
تازہ ترین