• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وفاقی حکومت کی جانب سے کھاد پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے کا فیصلہ نہ صرف پورے ملک کے کاشتکاروں کے لیے نہایت تکلیف دہ ہے بلکہ قومی معیشت پر بھی اس کے لازماً منفی اثرات مرتب ہوں گے۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اور کسان برادری اس پر شدید احتجاج کررہی ہے اور پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے اس اقدام کو غیر انسانی قرار دیا ہے ۔ ان کے بقول حکومت نے غیر ملکی دباؤ کے تحت قومی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے زرعی شعبے کو نقصان پہنچانے والا قدم اٹھایا ہے جس سے دیہی علاقوں کی غربت میں اضافہ ہوگا۔ زرعی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت کا فیصلہ رواں سال میں گنے اور مکئی کی فصلوں پر اثرا نداز ہوگا۔ پیپلزپارٹی کے قائد کے مطابق حکومت صرف پنجاب کے کسانوں کو سہولتیں فراہم کررہی ہے جو بین الصوبائی ہم آہنگی کے لیے سخت نقصان دہ ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اس فیصلے کا جواز یہ بتایا گیا ہے کہ بجٹ میں اس مد کے لیے مختص رقم ختم ہوجانے کے بعد یہ اقدام ضروری تھا۔سینیٹ میں ایک نکتہ اعتراض پر بیان دیتے ہوئے فوڈ سیکوریٹی اینڈ ریسرچ کے وزیر سکندر حیات نے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ سال متعارف کرائی گئی اس اسکیم کے سبب یوریا کے استعمال میں اٹھارہ اور ڈی اے پی میں تئیس فی صد اضافہ ہوا ، اس اسکیم پر خرچ کا تخمینہ ان کے مطابق تقریبا اٹھائیس ارب روپے لگایا گیا تھا جسے وفاق اور صوبوں میں مساوی طور پر تقسیم کیا جانا تھا۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومت پنجاب نے اعلان کیا ہے کہ کسانوں کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے وہ اپنے طور پر فی بوری چار سو روپے زرتلافی ادا کرے گی ، یہ یقینا ایک درست فیصلہ ہے تاہم وفاقی حکومت کو بھی کھاد پر زرتلافی کے خاتمے کے منفی اثرات کے پیش نظر اس فیصلے پر بلاتاخیر نظر ثانی کرتے ہوئے غیرترقیاتی اور کم ضروری اخراجات میں حتی الامکان تخفیف کرکے کھاد پر دی گئی سبسڈی بحال کردینی چاہیے تاکہ کسانوں کو مشکلات میں اضافے اور قومی معیشت کومنفی اثرات سے بچایا جاسکے۔



.
تازہ ترین