• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچپن میں سکھائی بتائی گئی چند باتیں جو بہت گہری، بہت ہی اندر بلکہ شاید روح تک میں راسخ ہوگئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ ’’بیٹا!دوستوں کی بہنیں تو بہنیں ہوتی ہی ہیں، چھوٹی بہنوں کی سہیلیاں بھی چھوٹی بہنوں جیسی ہی ہوتی ہیں‘‘۔ سو رخسانہ نور چھوٹی بہنوں جیسی ہی تھی۔ مجھ سے چھوٹی غزالہ نثار کی کلاس فیلو تھی یا ایم اے جرنلزم میں شاید سال جونیئر یا سینئر، مجھے یاد نہیں لیکن تب سے چند ہفتہ قبل آخری ملاقات تک میں اس کے لئے ’’حسن بھائی‘‘ اور وہ میرے لئے صرف رخسانہ تھی۔ ہنستی کھیلتی رخسانہ نے کینسر والی کہانی کبھی میرے ساتھ شیئرنہیں کی لیکن پچھلی ملاقات میں اپنا شعری مجموعہ دینے اور انٹرویو لینے کے بعد اپنے بچوں کا ذکر کرتے ہوئے اچانک بولی ’’آپ کو شاید علم نہیں مجھے کینسر ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ ٹریٹمنٹ کی تفصیلات بتاتی رہی جو مجھے ٹھیک سے سنائی نہیں دے رہی تھیں۔ جیسے بہت دور سے آواز کٹ کٹ کے آ رہی ہو۔ میں نے اپنی بیٹی محمدہ سے کہا ’’آپ آنٹی سے گپ شپ لگائو، میں ابھی آیا‘‘ ممکن ہے رخسانہ نے سوچا ہو کہ میں کینسر کتھا سنا رہی ہوں اور حسن بھائی اٹھ کر چل دیئے لیکن میری مجبوری تھی۔ میں اسے یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ مردوں کی آنکھوں میں آنسو زیب نہیں دیتے اس لئے وہ چھپ کے رو لیا کرتے ہیں۔ لکھتے لکھتے یاد آیا وہ میرے انٹرویو کے لئے نہیں محمدہ بیٹی کا انٹرویو کرنے آئی تھی کہ وہ ’’فادرز ڈے‘‘ کا موقع تھا۔ اس کی لکھی ہوئی فلمیں اور گیت اپنی جگہ، اس کی اپنی زندگی کسی کہانی اور گیت سے کم نہیں تھی اور گیت کی عمر ہی کتنی ہوتی ہے؟ سچ پوچھیں تو وہ پورا نغمہ بھی نہیں غنویٰ تھی جس کا مطلب ہے چھوٹا سا نغمہ۔ اس نے زندگی اور موت، دونوں کا سامنا اور مقابلہ بہت سلیقے، خوش اسلوبی، ہمت اور حوصلے سے کیا۔ زندگی ہو یا موت، حرف شکایت شاید اس نے خود پر حرام قرار دے رکھا تھا۔ وہ اپنے قابل بچوں کا ذکر بے پایاں محبت اور شریک حیات شاہ جی (سید نور) کا ذکر بے حد احترام سے کرتی کہ اس نے تو کینسر کا ذکر بھی ایسے کیا تھا جیسے کوئی موسم کی تبدیلی پر گلے کی خراش کا ذکر کرے۔ میں دور دیس بیٹھی اس کی بیٹیوں اور یہاں موجود اس کے بیٹے کے لئے دکھی اور دعا گو ہوں کہ اللہ پاک ان کو استقامت، حوصلہ اور صبر عطا فرمائے کہ یہ سب ان کی والدہ کے پسندیدہ ترین زیورات تھے۔موت تویوں بھی ناگزیر موضوع، کالم میں بھی آنکلی تو چند روزہ سابق گورنر سندھ کو بھی یاد کرلیں۔ ٹی وی پر یہ جملہ سنا....’’گورنر سندھ کو ہسپتال لے جایا رہا تھا کہ راستے میں انتقال کرگئے۔‘‘ میرا فوری ردعمل عجیب سا تھا کہ ہر انسان جب انتقال کرتا ہے تو راستے میں ہی ہوتا ہے۔ مہد سے لحد تک ایک مختصر سا راستہ ہی تو ہے جس کے بعد ہر کوئی بغیر کسی کوشش، پاسپورٹ اور ویزے کے اپنی منزل پر جا اترتا ہے لیکن یہ مختصر سا راستہ بہت پیچیدہ ہے۔ میں نےکبھی لکھا تھا ۔عمر اس سوچ میں ساری جائےزندگی کیسے گزاری جائے کوئی کہتا ہے.......’’مجھے راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘یا.......’’چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آستہ‘‘ہر مسافر کا رخت  سفر...... زاد راہ اپنا اپنا ہوتا ہے جس سے اس کی افتاد طبع کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔کچھ لائیٹ ٹریولنگ پر اکتفا کرتے ہیں۔ کم سے کم سامان کےساتھ سفر کو ترجیح دیتے ہیں،کچھ ایکسیس بیگیج کو ترجیح دیتے ہیں، اتنا سامان اٹھا لیتے ہیں کہ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ کے سامان میں ممنوعہ اشیا پوشیدہ ہوتی ہیں جو پکڑی جاتی ہیں کہ زندگی کےسفر والے امیگریشن میں جانچ پڑتال کرنے والوں کو جُل دینا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ سنا ہے سواری کے اعضا تک اس کے خلاف گواہ بن جاتے ہیں۔ مسافر فرسٹ کلاس کا ہو یا اکانومی کا، منزل تک پہنچ ہی جاتا ہے لیکن آگے ........ خدا کی پناہ۔اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کومیں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا "LIFE IS FRAGILE; HANDLE IT WITH PRAYER"POGOکہتا ہے"I HATE DEATH, I COULD LIVE FOREVER WITHOT IT"اور یہ سادہ سی بات بہت سوں کو سمجھ نہیں آتی "A LIFE OF EASE IS A DIFFICULT PURSUIT" پھراپنا اک شعر یاد آ رہا ہےزندگی مشکل تھی میں نے اس کو مشکل تر کیااک جھروکہ ہی جہاں کافی تھا میں نے در کیامسافروں کو ’’غیر ضروری سامان‘‘ سے اجتناب کرنا چاہیےیہاں نجانے کیونکہ سپریم کورٹ کا یہ جملہ یاد آ رہا ہےکہ ......’’وزیر اعظم کے مطابق ان کی زندگی کھلی کتاب ہے مگر بعض صفحات غائب ہیں‘‘ الامان الحفیظ الامان الحفیظ۔’’مسافروں کے سفر کے انجام پر اک منزل ایسی بھی آتی ہے جہاں پر مسافر کی زندگی اک ایسی کھلی کتاب کی مانند ہوتی ہے جہاں صفحات تو کیا ایک حرف، ایک لفظ بھی غائب نہیں ہوتا نہ کیا جاسکتا ہے۔




.
تازہ ترین