• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند دن پہلے کچھ اخبارات میں ایک انتہائی اہم خبر نظر سے گزری‘ اس خبر کے مطابق قومی اسمبلی میں لیڈر آف اپوزیشن سید خورشید شاہ کی صدارت میں ہونے والے پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے آڈیٹر جنرل نے انکشاف کیا کہ آئین کے آرٹیکل 169 اور 170 کے تحت تمام وفاقی و صوبائی محکمے خواہ وہ سیکرٹ ہوں یا دیگر کے آڈٹ کا اختیار حاصل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس فیصلے کے مطابق آئی بی کے تمام ریکارڈ کا آڈٹ کیا گیا لیکن 2014 ء کے فنانس ایکٹ کے ذریعے حکومت نے ان انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سیکرٹ فنڈ کے آڈٹ سے روک دیا اور وزیر خزانہ کو اختیار دیا کہ وہ ان سیکرٹ فنڈز کے استعمال کی تصدیق کرکے تحریری طور پر آڈیٹر جنرل کے آفس میں جمع کرائیں اور وزیر خزانہ ان اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے۔ آڈیٹر جنرل نے پی اے سی کو مزید بتایا کہ محکمہ نے قانونی مشاورت کے لئے وزارت قانون سے رجوع کیا جس نے ہمیں بتایا کہ خفیہ ایجنسیوں کا آڈٹ نہیں ہوسکتا (واہ ‘ واہ‘ سبحان اللہ)۔ آڈیٹر جنرل نے کہا کہ اس کے بعد ہم نے ’’تھرڈ امپائر‘‘ کے طور پر اٹارنی جنرل آف پاکستان سے رابطہ کیا‘ انہوں نے بھی آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے خلاف فیصلہ دیدیا(آخر تھرڈ امپائر تو تھرڈ امپائر ہی ہوتا ہے! ) انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیدیا کہ آڈیٹر جنرل کو آڈٹ کے اختیارات حاصل نہیں ہیں۔ اجلاس کی ابتدامیں ہی پاکستان کے آڈیٹر جنرل نے بتایا کہ آئین کی دو شقوں 169 اور 170 کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی محکمے خواہ وہ سیکرٹ ہوں یا دیگر کے آڈٹ کا اختیار حاصل ہے۔ اس سلسلے میں قارئین اور عوام کے علم میں لانے کے لئے آئین کی شق 170(2) من و عن یہاں پیش کررہا ہوں جس کے مطابق : The audit of the accounts of the federal and of the provincial Governments and the accounts of any authority or body established by, or under the control of the federal or a provincial Government shall be conducted by the Auditor General who shall determine the extent and nature of such audit. اب اس ۔ آئینی شق اور ذیلی شق کے بعد کیا جواز رہ جاتا ہے کہ آڈیٹر جنرل کو ان اداروں کے اکائونٹس کے آڈٹ سے روکا جائے۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ پی اے سی کے اسی اجلاس میں آڈیٹر جنرل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ جب ان خفیہ اداروں کے آڈٹ میں اس طرح روڑے اٹکانے کا سلسلہ شروع ہوا تو انہوں نے سپریم کورٹ کے دروازے پر دستک دی اور انہوں نے بھی 8 جولائی 2013 ء کوفیصلہ دیا کہ آڈیٹر جنرل آئین کی ان دو شقوں کے تحت ان خفیہ اداروں کے اکائونٹس کا آڈٹ کرسکتے ہیں۔ اس مرحلے پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آئین قانون کے ماتحت ہے یا قانون آئین کے ماتحت ہے۔؟ تو پھر اس طرح بے دریغ انداز میں موجودہ حکومت آئین کو کیوں لتاڑ رہی ہے‘ ویسے بھی اس سے پہلے میں کم سے کم چار‘ پانچ کالم لکھ کر اس بات کی طرف توجہ مبذول کراچکا ہوں کہ ’’موجودہ حکومت‘‘ کے سامنے آئین کی کوئی حیثیت نہیں‘ بس ان کا حکم آئین سے کافی supreme ہے‘ مزید افسوس ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو بھی نہیں مانا جارہا۔ یعنی ’’موجودہ حکومت‘‘ کے نزدیک نہ آئین کی کوئی اہمیت ہے اور نہ سپریم کورٹ کی کوئی اہمیت ہے‘ وقت آگیا ہے کہ موجودہ سپریم کورٹ اس بات کا سوموٹو نوٹس لے‘ کیا یہ حکومت‘ اٹارنی جنرل اور وزارت قانون آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلوں سے مبرا ہیں‘ اس مرحلے پر یہ بات بھی آگے آتی ہے کہ جب قومی اسمبلی 2014 ء میں فنانس ایکٹ منظور کرکے ان خفیہ ایجنسیوں کو آڈٹ سے مبرا قرار دے رہی تھی تو کیا قومی اسمبلی کے کسی بھی ممبر کو اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اعتراض کرے کہ یہ قانون آئین سے ٹکرائو میں ہے‘ مگر کیا کیجئے پارلیمنٹ کےکئی ممبران ’’شرفا‘‘ جو ٹھہرے‘ ان کا تعلق تو اپنے مفادات سے ہونا چاہئے‘ آئین‘ عوام اور قومی اداروں سے ان کا کیا واسطہ؟ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ آڈیٹر جنرل امین نے مزید انکشاف کیا کہ نہ فقط خفیہ ادارے مگر کچھ دیگر ادارے مثلاً فرنیٹئر ورکس آرگنائزیشن اور نیشنل بینک آف پاکستان نے بھی آڈیٹر جنرل کے آفس سے اپنے اکائونٹس کا آڈٹ کرانے سے پرہیز کیا۔ اب ایف ڈبلیو او کا کیا کہنا‘ اس وقت سی پیک منصوبے کے تحت یہ ادارہ جس طرح خاص طور پر حیدرآباد اور کراچی کے درمیان موٹر وے کی تعمیر کررہا ہے اور ان کی mismanagement کے نتیجے میں کتنی گاڑیاں جل کر راکھ ہوگئی ہیں‘ کتنے انسان اجل کا شکار ہوئے ہیں‘ کیا ان سے اس سلسلے میں کوئی حساب لے رہا ہے‘ جہاں تک این بی پی کا تعلق ہے تو ایک خبر کے مطابق حال ہی میں اس بینک میں اربوں روپے کا فراڈ ہوا ہے اور وزیر خزانہ نے اس فراڈ کا نوٹس لیکر اسٹیٹ بینک کو حکم دیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں تحقیقات کریں‘ اب اس کا کیا ہوگا۔ آڈیٹر جنرل نے اس اجلاس میں مزید یہ انکشاف کیا کہ این بی پی نے ان کے اکائونٹس کے آڈٹ کے خلاف 2012 ء میں سندھ ہائی کورٹ سے اسٹے حاصل کیا ہے اور اس بات کے باوجود کہ سپریم کورٹ نے اپنے آرڈر میں کہا ہے کہ این بی پی کے اکائونٹس کا آڈیٹر جنرل کے آفس سے آڈٹ ہوسکتا ہے‘ این بی پی نے آڈیٹر جنرل کے آفس سے آڈٹ کرانے سے انکار کردیا ہے‘ این بی پی کے بھی کئی قصے ہیں جو عام لوگوں کی بحث کا حصہ رہتے ہیں۔ حال ہی میں این بی پی کی ایک خاتون آفیسر جو ابھی مستقل نہیں ہوئی تھیں انہیں اچانک ملازمت سے ہٹایا گیا جس کے نتیجے میں اس کے دماغ کی رگ پھٹ گئی اور وہ انتقال کرگئی۔



.
تازہ ترین