• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
منیر نیازی نے تو دل کے معاملات میں یہ صلاح دی تھی کہ اچھا ہے کہ کچھ باتیں ان کہی اور ان سنی رہ جائیں لیکن دنیا کے کاروبار اور حقائق کی معرکہ آرائی میں ان کہی باتوں یعنی کسی ابہام کی کوئی گنجائش نہیں ہونا چاہئے، کچھ باتوں پر پردہ ڈالنے یا ان کی سچائی سے انکار کے سبب قومی سطح پر کئی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں،حکمرانی کے فرائض خاص طور پر یہ تقاضا کرتے ہیں کہ کسی بھی صورت حال کو اس کے تمام جائز حوالوں کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے، کیا ہمارے ملک اور معاشرے میں ایسا ہو رہا ہے؟ بلکہ زیادہ دلخراش سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ حالات میں ایسا ممکن بھی ہے؟ جب میں موجودہ حالات کا ذکر کرتا ہوں تو میرا اشارہ ظاہر ہے کہ ان مسائل کی جانب ہے جن میں ہم ان دنوں الجھے ہوئے ہیں، اب آپ شاید یہ سمجھیں کہ میری نظر میں پاناماکیس کی وہ سماعت ہے جو سپریم کورٹ میں جاری ہے اور جس کے سائے میں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے بازیگر اپنا اپنا تماشہ دکھاتے ہیں…لیکن نہیں کیونکہ بہت کچھ اس ملک میں ایسا بھی ہوا ہے اور ہو رہا ہے جس کا زیادہ گہرا تعلق ہماری قومی سلامتی اور ہماری بقا سے ہے۔ ویسے یہ فیصلہ کہ کونسی خبر زیادہ اہم ہے ہر کوئی اپنے طور پر کرسکتا ہے…میڈیا والے تو اکثر اپنے دیکھنے اور اپنے پڑھنے والوں کی دلچسپی کا زیادہ خیال رکھتے ہیں اور اس جستجو میں وہ صحافتی معیار اور عقل وفہم کے مطالبات کو بھی رد کرسکتے ہیں، اس سلسلے میں نیوز چینل اور اخبارات میں کچھ فرق ضرور ہے بلکہ انگریزی اور اردو اخبارات کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں، فارمولا کچھ یوں ہے کہ اردو اخبارات قدامت پرستی اور انگریزی اخبارات روشن خیالی کی طرف زیادہ جھکتے ہیں… ان تمام باتوں سے قطع نظر کسی بھی ایک خبر یا واقعات کی ایک کڑی کا ہماری اجتماعی تقدیر سے کتنا تعلق ہے اس کا فیصلہ کبھی واضح اور کبھی بہت مشکل ہوجاتا ہے، یہ بھی سچ ہے کہ کسی بھی اہم خبر کے آئینے میں ہمیں پورے معاشرے کی تصویر نظر آسکتی ہے…گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی طیبہ کی کہانی ہی کو لے لیجئے…ہمارے پڑھے لکھے، بظاہر مہذب اور بااختیار افراد کیسی سوچ رکھتے ہیں اور ان کا عمل کیا ہے…کیا اس خبر کا تعلق ہمارے معاشرے کی ان اقدار سے نہیں ہے جن کا دفاع ہمارے حکمراں اکثر انجانے میں کرتے رہے ہیں؟
اور اب میں آپ کو یہ بتائوں کہ میری نظر میں اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی خبر کیا ہے…اس خبر کی مجھ پر اتنی دہشت ہے کہ جیسے میں بچتے بچاتے یہاں تک پہنچا ہوں… میرا دل کہتا ہے کہ آپ میں اکثر کہ جن کے دل گداز ہیں اور جو اپنے ملک اور اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے پریشان رہتے ہیں یہ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں ان افراد کا ذکر کر رہا ہوں جنہیں سوشل میڈیا میں اپنے رائے کا اظہار کرنے اور جمہوری اور ترقی پسند خیالات کو پھیلانے کے جرم میں اغواکرلیا گیا ہے بظاہر جبری گمشدگی کے ان واقعات کو پتہ نہیں کس طرح پیش کیا جائے…ایک دو نہیں بہت سے سوالات دل اور دماغ میں ہلچل مچائے ہوئے ہیں…بنیادی بات یہ ہے کہ گمشدگی کے یہ واقعات جن میں سلمان حیدر اور دوسرے تین افراد کا ذکر ہے ایک ایسے وقت رونما ہوتے ہیں کہ جب دہشت گردی کیخلاف جنگ کو اتنا عرصہ گزر چکا ہے اور کہنے کو نیشنل ایکشن پلان کی عملداری ہے کہ جس کے مقاصد ان اٹھائے جانے والے افراد کی فکر سے مطابقت رکھتے ہیں…تو پھر کون کسے کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟ اس ملک میں کون محفوظ ہے اور کس کی زندگی خطرے میں ہے؟ منگل کو ایوان بالا میں وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے جو تقریر کی اس نے چند مزید خدشات کو جنم دیا…کیا حکمرانوں کی سوچ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے بارے میں بالکل نہیں بدلی؟ میرا حوالہ چوہدری نثار کے بیان کا وہ حصہ ہے جس میں انہوں نے کچھ یہ تاثر دیا کہ فرقہ پرستی میں ملوث کالعدم تنظیموں کا موازنہ دہشت گرد تنظیموں سے نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ شیعہ، سنی کا مسئلہ ساڑھے 13؍سو سال سے ہے…اس پر ایوان کے چند ارکان نے احتجاج بھی کیا…یہاں میں فرقہ واریت کے مسئلے یا اس کی تاریخ پر کوئی گفتگو نہیں کررہا…لیکن جس طرح کوئٹہ کی ہزارہ برادری پر حملے ہوئے اسے ہم دہشت گردی کی انتہا کیوں نہ سمجھیں…ایک اور بات یہ کہی جاسکتی ہے کہ کالعدم تنظیموں کے بارے میں وزیرداخلہ کی سوچ پہلے بھی توجہ حاصل کرتی رہی ہے…ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس سوچ کے ساتھ انتہا پسندی کیخلاف کارروائی شاید زیادہ کارگر نہ ہو۔
ہاں، اپنے بیان میں وزیرداخلہ نے دراصل چار افراد کے اغواء سے متعلق حکومت کی جانب سے وضاحت پیش کی…اس اخبار نے ان کے بیان کی یہ سرخیاں لگائیں، ’’حساس اداروں سے بات کی ہے، لاپتہ پروفیسر جلد واپس آسکتے ہیں، چوہدری نثار/ لاپتہ کرنا ہماری پالیسی نہیں، اس وقت تفصیل بتانے سے تفتیش متاثر ہوسکتی ہے، چوہدری نثار سینیٹ کو بریفنگ/ وزیرداخلہ کے ریمارکس پر اپوزیشن کا واک آئوٹ، پیش رفت سے ایوان کو آگاہ کرتے رہیں، چیئرمین سینیٹ رضا ربانی۔‘‘ یہ سرخیاں میں نے اس لئے نقل کی ہیں کہ صورتحال کا اندازہ آپ خود کرسکیں، میں نے ایسے تبصرے پڑھے ہیں جن میں ان بلاگرز کے اغوامیں ریاست کی ذمہ داری پر زور دیا گیا ہے، قومی سلامتی پر اتنی توجہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اتنی کڑی نگرانی کے ہوتے ہوئے یہ افراد کیسے اغوا ہوگئے…یہاں آپ دیکھیں کہ کتنی باتیں، کتنے خدشات ان کہی باتوں میں شمار ہوں گے…جیسے ان، ان کہی باتوں کی دھند میں طرح طرح کے خطرات چھپے ہوئے ہیں…یہ سوچ کر دل دہل جاتا ہے کہ کیا پشاور میں بچوں کے بہیمانہ قتل نے بھی حکمرانوں کی سوچ کو پوری طرح تبدیل نہیں کیا اور یہ بھی کہ اگر سوچ تبدیل نہ ہو تو حالات کیسے بدلیں گے۔




.
تازہ ترین