• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کیا ہمیں صرف وزارت عظمیٰ کافی نہیں؟
سینئر تجزیہ کاروں نے کہا ہے:صدر اور گورنر کے عہدے ختم کر دینے چاہئیں، جن ملکوں کو ہم امیر ترین جان کر وہاں رزق ڈھونڈنے جاتے ہیں وہ بھی رزق بچانے کے لئے ایک امام اور اس کے پیچھے حکمرانوں کی صف مختصر رکھتے ہیں، تاکہ پیسے بچیں، یہ سوچ تو امیری میں فقیری کے مترادف ہے، لیکن ہم غریب ملک امیر ترین حکمران کو یہ خیال کیوں نہیں آتا کہ حکومتی سطح پر کم مگر کام کے افراد کو اونچے اونچے منصب دیں، جب ایک چیف ایگزیکٹو بصورت وزیراعظم موجود ہیں تو صدر کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہمارے ہاں صدر کبھی وزیراعظم کی گوشمالی بھی نہیں کرتے، نہ ان کے نظام کو مانیٹر کرتے ہیں، بس ایک پیر طریقت کی طرح سجادے پر بیٹھے تعویز لکھتے رہتے ہیں، اس کے علاوہ بھی جھاڑ پھونک کے لئے چار گورنر بھی موجود ہیں، حالانکہ صوبے کا چیف ایگزیکٹو اس کا وزیر اعلیٰ موجود ہے اور وزیراعظم جب چاہیں کسی بھی صوبے کے کام کی نگرانی کر سکتے ہیں، دراصل ہمارے ہاں اقتدار واقعتاً ایک نشہ ہے، یہ کوئی اقتدار ہے یا چھنو کی آنکھ؟ ہم بس اتنی سی گزارش اپنے سینئر تجزیہ کاروں سے متفق ہوتے ہوئے عرض کریں گے کہ حکمرانی کا جہاز زیادہ افراد بٹھانے سے ڈوب سکتا ہے، اور پھر ملک کو کسی ایک نظام کے تحت چلائیں یہ کیا کہ صدارتی گورنری راج بھی ہے، صرف اس لئے کہ جیسے برطانیہ نے رائل فیملی کو بطور تبرک رکھا ہوا ہے مگر بکنگھم پیلس والے تنخواہیں تو نہیں لیتے، یہ روایت کہ گورنر کا ایک وسیع و عریض گورنر ہائوس بھی رہنا چاہئے، یہ سب استعماری نظام کی غلامانہ یادگاریں ہیں، اب ایسا کرنا تو غریب عوام کے بس کا روگ نہیں، عام آدمی خود کو نہیں پال سکتے وہ صدر، گورنر اور اس نوعیت کی کئی نمائشی انداز کی آسامیوں کو کیسے پال سکتے ہیں، اسحاق ڈار کیوں تجویز نہیں دیتے نماز پڑھ کر کہ فلاں فلاں کرسی قوم پر بوجھ ہے، قوم اتنے ٹیکس نہیں دے سکتی کہ سفید ہاتھی پال سکے، ہمیں اپنے پارلیمانی نظام کی مشینری بھی مختصر کرنا ہو گی جب صدارتی نظام رائج نہیں تو صدر گورنرز رکھنا چہ معنی دارد؟
٭٭٭٭
قرض کی پیتے تھے مے
وفاقی حکومت نے دو عالمی اداروں سے 12ارب ڈالر کے قرضے لینے کا فیصلہ کر لیا ہے، کیونکہ وہ سندھ اور خیبر پختونخوا کی ترقی پر یہ رقم خرچ کر کے دونوں صوبوں کو بھاری قرضہ اٹھا کر بھاری خوشحالی دینا چاہتی ہے، بڑی اچھی بات ہے ہم روز ازل کے قرضیٔ ہیں، ایک قرضہ اور سہی، ایک زمانہ تھا جب ابھی اسرائیل کی ریاست بھی نہ تھی کہ جونہی صبح ہوتی یہودی ساہوکار تھڑوں پر بیٹھ جاتے، اور سود پر قرضے دیتے تھے مثال کے طور ایک روپیہ بھی دیتے تو قرض خواہ کی نسل وہ روپیہ بمعہ سود در سود ادا کرتی رہتی، اس کے علاوہ یہ ساہو کار پرانی مذہبی من گھڑت مائیتھالوجی بھی بہت زیادہ جانتے تھے، لوگ قصے بھی سنتے اور خوب قرضے اٹھا اٹھا کر خود کو اٹھاتے ہی گر پڑتے تھے، مگر ہم نے دیکھا ہے کہ قرض لینا بھی شراب کے نشے سے کم نہیں، اور اگر حافظ کے اس شعر میں صرف ایک لفظ کی تبدیلی کر دیں تو بے محل نہ ہو گا؎
ساقیا یک دو ساغرِ شراب بہار
ساقیا مایۂ شباب بہار
(ساقی تیری ساقی گری کی خیر، شراب و شباب لا!)
بہرحال ہم سنجیدہ بلکہ رنجیدہ موضوع سے گھبرا کر مزاج کو لبھانے مزاح کا رخ کر لیتے ہیں لیکن قرض تو قرض ہے لوٹانا ہو گا، اور ساتھ اصل زر سے زیادہ سود بھی دینا ہو گا، یہ اللہ سے اور اپنے عوام کے خلاف جنگ کب تک لڑتے رہیں گے اور اپنی حکمرانیوں کے جواز فلک پیر سے مانگتے رہیں گے، کیا ہمارے صوبے اپنے اخراجات اپنی ترقی کا سامان خود کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا جا سکتا، جس میں وفاق جائز مدد کرے، ہم اپنی برآمدات، اپنی معدنیات، اور بالخصوص زراعت کو کام میں لا کر خود کفیل نہیں ہو سکتے۔
سخت کافر تھا پہلے میرؔ
جس نے مذہب قرض اختیار کیا
٭٭٭٭
ادارے، کمیٹیاں، انکوائریاں
اب ہم یہ تو نہیں کر سکتے کہ منوں مطالعہ کر کے سارے اعدادوشمار اور فضول خرچیوں کے حجم آپ کو ٹھیک ٹھیک بتا سکیں لیکن اگر قلم کا اعتبار ہے تو اس کی آنکھوں میں جھانک لیں سب شیشہ ہو جائے گا، اقبالؔ نے تو کہا تھا؎ یہ قوم خرافات میں کھو گئی، ہم کہتے ہیں یہ اخراجات میں بہہ گئی، اپنے ہی ایجاد کردہ کرپشن کے بحر ناپیدا کناں میں سے موتی ڈھونڈ نکالنے کے لئے ادارے قائم کرتے ہیں، کمیٹیاں تشکیل دیتے ہیں، پھر انکوائریاں رچاتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے بیاہ رچاتے ہیں، یہ ادارے کمیٹیاں انکوائریاں بھی پیٹ رکھتی ہیں جن کو بھر کر بھی غریب کا بھلا نہ ہوا۔ ہمارے حکمران انقلاب کیوں نہیں لا سکتے، ہر روز گناہ کی جرم کی نئی سے نئی صورتیں سامنے آ رہی ہیں، سب کے لئے ادارے، سیل، کمیٹیاں قائم کی جا رہی ہیں، مگر خرچہ ہی خرچہ، محفوظ نہیں غریب کا بچہ، ہم کیا بتائیں لوگ باگ اسکرینوں پر ناکردانیاں دیکھنے کے عادی ہو گئے ہیں، اور حکمرانوں کی رگ مدافعت اتنی طاقتور کہ ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، زیادہ کھانے سے پیٹ کبھی بھرتا نہیں زیادہ پینے سے نشہ چڑھتا نہیں، پہلے پیٹ پیٹھ سے لگے ہوتے تھے چند نوالوں سے کام چل جاتا ہے، پیتے بھی کم تھے اس لئے ایک آدھ گھونٹ سے خمار آ جاتا مطلب یہ ہے کہ بات سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ ساغر و مینا کہے بغیر تو ہماری رنگین باتوں میں بھی محروموں کے لہو کا رنگ ہوتا، جائز ناجائز کی بحث میں مت پڑ جایئے گا۔
٭٭٭٭
پرانی جو پارٹیاں ہیں اٹھتی جاتی ہیں
کہیں سے آب بقائے اتحاد لے ساقی
....Oبھارتی فوجی کے بعد ایک بھارتی پولیس اہلکار بھی پھٹ پڑا، وہ کہتا ہے:چھٹیاں ملتی ہیں نہ پنشن، اور میڈیکل
مودی جی اب واسکٹ اتار کر اپنی فوج اور پولیس کو نہ صرف پیٹ بھر کھانا دیں، کھانا بھی معیاری ہو، اور پولیس کے دکھڑے بھی سن کر مداوا کریں ورنہ یہ چوہا فورسز کیسے پاک شیروں کے مقابل آ سکیں گی،
....Oبلاول کا 19؍ جنوری کو حکومت کے خلاف لاہور سے فیصل آباد ریلی نکالنے کا اعلان،
براہ کرم اپنی سندھی رلی بچھا کر اس پر بیٹھ کر لاڑکانے ہی میں کسی جانب نکل جائیں۔
ریلی ہو جائے گی، پنجاب میں ٹریفک روکنے سے کچھ نہ ہو گا، پی پی شرما کر اور سمٹ گئی ہے۔
....Oشیخ رشید:نواز شریف اور زرداری آئندہ الیکشن میں اتحادی ہوں گے،
مگر پی پی خود کو اتنا تگڑا تو کر لے کہ اتحادی بھی بن سکے،
....Oسپریم کورٹ:وزیراعظم کی زندگی کھلی کتاب مگر چند صفحات غائب ہیں،
بعض اوقات ایک جملہ غائب ہو تو پورا مضمون غارت ہو جاتا ہے، بہرحال کتاب زندگی کا ایک مکمل پرنٹ اللہ تعالیٰ کے پاس ہوتا ہے، اور وہاں معلومات تک رسائی ممکن نہیں۔ بہرحال ڈھونڈنے سے خدا مل جاتا ہے تو یہ چند صفحات بھی مل جائیں گے، عدالت کتاب کھلی ہے تو کھلی ہی رہنے دے، حساب ہو جائے گا۔




.
تازہ ترین