• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آرٹیکل 62 میں نااہلی سے پہلے سز اہونا ضروری ہے،وکیل نوازشریف

اش اسلام آباد(نمائندہ جنگ، صباح نیوز)سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کسی کو غلط اثاثوں پر نااہل قرار دلوانے کیلئے درخواست دائر کی جاسکتی ہے،پاناما کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ہے جبکہ دوران سماعت وزیر اعظم کے وکیل نے دلائل میں موقف اختیارکیا ہے کہ وزیر اعظم و دیگر اراکین پارلیمان کی آرٹیکل (1-F) 62کے تحت نااہلی کیلئے کسی عدلت سے سزایا فتہ ہونا( عدالتی ڈکلیئریشن) ضروری ہے اورمروجہ قانون کے مطابق ڈکلیئریشن اور نااہلی ایک ساتھ نہیں ہو سکتے اس موقع پر عدالت نے قراردیا ہے کہ جب آئین کے آرٹیکل62-63کے تحت کسی کی نااہلی کا معاملہ دیکھا جاتا ہے تو اس میں متعلقہ شخص کاطرز عمل (کنڈکٹ) ماضی(بیک گرائونڈ) اورمتعلقہ پہلو(context) دیکھا جاتا ہے،دریں اثناء مقدمہ میں وزیر خزانہ اسحق ڈار اور کیپٹن صفدر نے تحریری جواب جمع کرا دیا ہے۔ و زیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل آئندہ سماعت پر بھی جاری رہیں گے۔ جمعہ کوجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ ، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس اعجاز افضل اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جمعہ کوموجودہ بینچ کے سامنے کیس کی آٹھویں مسلسل سماعت تھی جبکہ مجموعی طور پر یہ 17ویں سماعت تھی جس کے بعدعدالتی ہفتہ ختم ہونے پر دو روز کا وقفہ آیاہے۔کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تووزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ وزیر اعظم کے خلاف آرٹیکل(1-F) 62کے تحت نااہلی کیلئے عدالتی ڈکلیئریشن ضروری ہے۔الیکشن کے بعد نااہلی کا معیار کم نہیں ہو سکتا۔ نااہلی کا معاملہ کاغذات نامزدگی کے وقت اٹھایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے بعد کووارنٹو کی درخواست دائر ہو سکتی ہے اور جعلی ڈگری کے معاملات بھی ٹربیونل کی سطح پر طے ہوتے ہیں۔ ڈگری جعلی اور اثاثے چھپانے پر نااہلی آرٹیکل 62کے تحت ہو سکتی ہے جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ جن مقد ما ت کا حوالہ دے رہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کیخلاف تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جن مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ ٹربیونل کیخلاف نہیں تھے۔مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ صدیق بلوچ کی نااہلی کا فیصلہ ٹر بیو نل سطح پر ہوا ، سپریم کورٹ نے ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔ اراکین اسمبلی کی نااہلی کیلئے ٹھوس شواہد کی ضرور ت ہوتی ہے۔ ٹربیونل نے صدیق بلوچ سے انگریزی کے مضمون کے بنیادی سوال پوچھے تھے۔ وزیر اعظم کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے سوا لا ت کی بنیاد پر نااہلی کو ختم کیا تھا اور ٹھوس شواہد کے بغیر نااہلی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے عدالت سے استفسار کیا کہ کیا مشرف کی نااہلی کا فیصلہ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں ہوا تھا ؟ آرٹیکل 62ون ایف کے اطلاق کے بھی ضابطے موجود ہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کیس میں ڈکلیئریشن سپریم کورٹ نے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے وہ فیصلہ سندھ ہائیکورٹ بار کیس میں دیا تھا۔بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت نے اس فیصلے میں قرار دیا تھا کہ مشرف نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نااہلی کیلئے پہلے ڈکلیئریشن ہونا ضروری ہے ، ڈکلیئریشن اور نااہلی ایک ساتھ نہیں ہو سکتے۔انہوں نے دوران سماعت جہانگیر ترین کے کیس کا حوالہ بھی دیا اور کہا کہ غلط بیانی اور جھوٹ کے تعین کیلئے بھی ضابطہ موجود ہے۔ وزیرا عظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کو ماضی میں بھی چیلنج کیا گیا جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ یہ شاید وہی خطاب تھا جو وزیر اعظم نے دھرنے کے دوران کیا تھا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت بھی وزیر اعظم پر سچ نہ بولنے کا الزام عائد کیا گیا تھا ، اسپیکر نے ڈکلیئریشن کے بغیر ریفرنس مسترد کر دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ نے اسپیکر کے فیصلے کو قانون کے مطابق قراردیا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون (ایف )اور عوامی نمائندگی ایکٹ 99میں کوئی فرق نہیں ہے ، دونوں قوانین کے تحت کوئی بھی رکن اسمبلی غلط اثاثوں کی بنیاد پر ایوان سے نااہل ہوسکتا ہے۔ اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی غلط اثاثوں کی بنیاد پر نااہل قرار دلوانے کیلئے درخواست دائر کی جاسکتی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ غلط بیانی اور جھوٹ کے تعین کے لیے بھی ضابطہ موجود ہے، وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کو ماضی میں بھی چیلنج کیا گیا، اس وقت بھی وزیراعظم پر سچ نہ بولنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، اسپیکر نے ڈیکلریشن کے بغیر ریفرنس مسترد کر دیا تھا جسکے بعد لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر کے فیصلے کو قانون کے مطابق قرار دیا تھا، اورسپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا، سپریم کورٹ اسپیکر کیخلاف درخواستیں خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ نااہلی کیلئے مناسب فورم کون ساہے یہ طے کرنا باقی ہے۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ آرٹیکل 62اور63مجلس شوری کے ممبران کی نااہلی سے متعلق ہے اس حوالے سے طے کرنا باقی ہے کہ یہ کیسے لاگو ہوتا ہے،ان کا کہنا تھاکہ کوئی بھی انسان کامل نہیں ہے۔وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر سپریم کورٹ نے مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔ دوسری جانب اس مقدمہ میں وزیر خزانہ اسحق ڈار اور کیپٹن صفدر نے تحریری جواب جمع کرا دیا۔شاہد حامد نے جواب پاناما کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کے روبرو جمع کروائے۔جوابات میں کہا گیا ہے کہ الزام لگایا کہ کیپٹن (ر) صفدر 2013سے پہلے ٹیکس ادا نہیں کرتے،حالانکہ وہ 1986سے ٹیکس ادا کررہے ہیں جبکہ اسحاق ڈار کا اعترافی بیان کا مقدمہ ختم ہو چکا ہے۔اسلئے اس بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
تازہ ترین