• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنرل قمر باجوہ کی بطور چیف آف آرمی اسٹاف تعیناتی نے ملکی سیاسی صورت ِحال کو، کم از کم وقتی طور پر، مستحکم کردیا ۔ اُن کے عہدہ سنبھالتے ہی فوج کی اعلیٰ کمان میں تبدیلی، ترقی، تبادلے اور تقرری کا ایک سلسلہ دکھائی دیا۔ اس ضمن میں تین فیصلے قابل ِ ذکر ہیںجن سے کچھ مخصوص پالیسیوں میں آنے والی تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے ۔ کراچی کے کور کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کو ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی رینجرز سندھ ، میجر جنرل بلال اکبر کولیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر جی ایچ کیومیں چیف آف جنرل اسٹاف تعینات کردیا گیا۔ آئی ایس پی آرکے فرائض میجر جنرل آصف غفور کے سپرد کردئیے گئے ۔ اس سے پہلے اس عہدے پر ایک لیفٹیننٹ جنرل، عاصم باجوہ تعینات تھے ۔
آرمی چیف کی طرح ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی بھی وزیر ِاعظم کا استحقاق ہے ۔ چنانچہ ہمیںیہاں اتفاق رائے کا تاثر ملتا ہے ۔ یہ بات اہم کہ سبکدوش ہونے والے ڈی جی آئی ایس آئی ،لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کو کور کمانڈر بنانے کی بجائے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تعینات کردیا گیا۔اگر وہ کور کمانڈر بنا ئے جاتے اور وہ کورکمانڈر میٹنگز میں شرکت کرتے تو اُن کی رائے اور تجربہ بہت قابل ِقدر ہوتا کیونکہ اُن کے پاس پہلے ڈی جی رینجرز سندھ اور پھر ڈی جی آئی ایس آئی کے اہم عہدوں پر فرائض انجام دینے کا تجربہ ہے ۔ یہ بات بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ جنرل رضوان اختر نے بھی اپنے پیش رو، لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کی طرح سول ملٹری تعلقات کا ہنگامہ خیز دور دیکھا تھا، لیکن اُن پر اُن کے پیش رو کے برعکس سویلینز نے مداخلت کے الزامات نہیں لگائے ۔ چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ جنرل باجوہ کی طرف سے ان دونوں اہم تعیناتیوں میں فری ہینڈ دینے سے مخصوص پالیسیوں میں تبدیلی کا اظہار ہوتا ہے ۔
لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کی ترقی اور تعیناتی بھی اہم ہے ۔ عام طور پر چیف آف جنرل اسٹا ف کے عہدے پر آرمی چیف کے بعد سب سے سینئر جنرل کو تعینات کیا جاتا ہے ، کیونکہ یہاں سے آرمی چیف کاعہدہ ایک قدم کی دوری پرہوتا ہے ۔ تاہم اس کیس میں نسبتاً ایک جونیئر جنرل کو اس عہدے پر سرفراز کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ جنرل باجوہ فوج کے اندرونی معاملات، خاص طور پر جن کا تعلق تقرریوں اور ترقیوں سے ہے ، کو براہ ِراست اپنی گرفت میں رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی طمانیت محسوس کریں گے کہ کراچی کی صورت ِ حال کا ماہر افسر اُن کے قریب ہی موجود ہے۔
شاید سب سے اہم ترین آئی ایس پی آر کےا سٹیٹس میں ہونے والی تبدیلی ہے ۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں یہ عہدہ ایک میجر جنرل سے اپ گریڈ کرکے لیفٹیننٹ جنرل کودیا گیا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لئے ایک طرح کا فری ہینڈ دے دیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر نے سابق آرمی چیف کی شخصیت اور کارناموں کو بے حد نمایاں کردیا ، اور ایسا کرنے سے منتخب شدہ حکومت اور وزیر ِاعظم پس ِ منظر میں چلے گئے ۔ اس وجہ سے سول ملٹری تعلقات میں تنائو کا تاثر ملا۔ تاہم نئی تعیناتی سے ظاہر ہوتاہے کہ اس عہدے کی پروفائل کو کم کردیا گیا ہے ، اور شاید یہ وقت کی ضرورت بھی تھی۔ لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ کو جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل آرمز کے عہدے پر تعینات کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جنرل باجوہ نے اُنہیں ایسے عہدے پر بھیجنا بہتر سمجھا جو عوام کی نظروںسے دور رہتا ہے ۔
اور یہ اچھی پیش رفت ہے ۔تاہم بدقسمتی، جو ہمارے تعاقب میں رہتی ہے ، سے یہی کچھ ریٹائرہونے والے جنرل راحیل شریف کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اُنھوںنے انتالیس ممالک کے کولیشن سے وجود میں آنے والی فورس کے کمانڈر ان چیف کا عہدہ قبول کرلیا ہے ۔ ایک برادر عرب ملک کی کوششوںسے وجود میں آنے والی یہ فورس شام ، ایران اور عراق کے مد ِ مقابل آئے گی۔ اگر اس میں کچھ صداقت ہے تویہ ایک منفی پیش رفت ہے ۔ پاکستانی پارلیمنٹ اور حکومت نے واضح کردیا ہے کہ وہ کسی ایسی تنظیم میں شریک ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے ۔ یقینا یہ ایک نئے ریٹائر ہونے والے آرمی چیف کے لئے مناسب نہیں کہ کسی ایسی تنظیم میں شامل ہو ں جس کی وجہ سے پاکستان کے قومی مفادات شدید کشمکش کی زد میں آجائیں۔
دوسری طرف جس طرح حکومت نے اس معاملے کو ہینڈل کرنے کی کوشش کی ہے ، وہ بھی پریشان کن ہے ۔ پہلے تو وزیر ِ دفاع ، خواجہ آصف نے اشارہ دیا کہ وزیر ِاعظم اس معاملے میںشریک ہیں۔ اس کے بعد اُنھوںنے سینیٹ کو بتایا کہ جنرل راحیل شریف نے جی ایچ کیو یا وزیر ِاعظم آفس سے این او سی حاصل نہیں کیا ہے ۔عوام کی طرف سے آنے والے شدید رد ِعمل کی وجہ سے اب جنرل راحیل شریف بھی قدم پیچھے ہٹارہے ہیں۔ اب میڈیا میں یہ معروضہ گردش میں ہے کہ ان کی طرف سے عہدہ قبول کرنے کے لئے تین پیشگی شرائط رکھی گئی ہیں۔ان میں سے ایک یہ کہ مذکورہ کولیشن ایران کے خلاف نہ ہو(خیال ہے کہ برادر عرب ملک اس شرط کو کسی طور تسلیم نہیں کرے گا)، نیز اس سے فرقہ ورانہ کشیدگی کا پہلو نہ نکلے ۔ اہم بات یہ ہے کہ اس واقعہ نے ریٹائرہونے والے افسران کی طرف سے بھاری مشاہرے پر غیر ملکی حکومتوں کے پاس ملازمت کرنے کی ناپسندیدہ روایت کو اجاگر کردیا ہے ۔ ایک سابق چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، جو ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر بھی فرائض سرانجام دے چکے تھے اور ایک اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے بھی ایسا کیا تھا ،لیکن اُن کا احتساب نہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی عرب بھائیوں سے مفاد حاصل کرنے کی بات کی تھی۔ ایک اور سابق جنرل، مرزا اسلم بیگ کا نام بھی ایسا ہی مفادحاصل کرنے والوں میں شامل ہے ۔ جس دوران جنرل قمر باجوہ اس عوامی رد ِعمل کا جائزہ لے رہے ہوں گے تو اُنہیں کچھ سوشل میڈیا کارکنوں کی ’’گمشدگی‘‘ کابھی نوٹس لینا چاہئے ۔ یہ سمجھنے کے لئے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں کہ وہ کس طرح غائب ہوئے ۔ جتنی جلدی اُنہیں بغیرکسی نقصان کے رہا کردیا جائے ، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ یقینا نئی اننگز کی شروعات اس طرح کرنا مناسب نہیں۔



.
تازہ ترین