• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
minhajur.rab@janggroup.com.pk
کمیشن ،پاکستان میں ایک اہم اصطلاح ہے جسے کئی طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کہیں یہ تبانک دہل استعمال کی جاتی ہے اور کہیں یہ مخفی ہوتی ہے ۔ ظاہری طور پر جب کوئی " بڑاواقعہ " ہوجاتا ہے تو اس کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جاتا ہے جس میں ماہرین کو شامل کیا جاتا ہے۔اس تحقیقاتی کمیشن کوتحقیقات کے لیے جتنے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے سب فراہم کئے جاتے ہیں۔ آئے دن اجلاس ہوتے ہیں اور پھر بالآخر تحقیقات منطقی نتیجہ پر پہنچ کر مکمل ہوجاتی ہے۔ اس تحقیقاتی کمیشن پر اٹھنے والے اخراجات یقیناً ملکی خزانے سے ادا کئے جاتے ہیں۔ جوکہ ٹیکس دینے والوں کی آمدنی سے جمع ہوتے ہیں لیکن ان سب سے حاصل کیا؟ کیا حمودالرحمن کمیشن سے لیکرایبٹ آباد کمیشن تک کسی کمیشن کی رپورٹ کومنظرعام کیا گیا ؟ کیوں ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ جب منظر عام پر لانا نہیں ہوتا تو کمیشن بنانے کی ضرورت کیاہے؟ ملکی خزانے پر بوجھ ڈالنے سے کیا فائدہ؟ دوسراکمیشن جوعلی الاعلان نہیں کیا جاتا ہے بلکہ زبانی طے کیا جاتا ہے یہ کمیشن زیادہ ترسرکاری اخراجات میں استعمال ہوتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ایک سرکاری ادارے کوکوئی سامان منگوانا ہے تو باقاعدہ ٹینڈردیا جاتا ہے۔ اور ٹینڈر کے جواب میں جو بولیاں (bids) آتی ہیں۔ اس میں سے سب سے کم بولی دینے والے کو یہ ٹینڈر دے دیا جاتاہے۔ لیکن کیا یہ کبھی دیکھاگیا ہے کہ سب سے " کم بولی" بھی " مارکیٹ پرائز" سے کتنی زیادہ ہوتی ہے؟ اگر مارکیٹ میں ایک چیز سو روپے کی ہوگی تو " کم از کم بولی "میں وہ پانچ سو سے ہزار کے قریب ہوگی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ ایک طرف تمام سرکاری ادارے " فنڈز" کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ لیکن ہر ادارے میں " ٹینڈر" کے نام پر " دس سے پچاس گنا" زیادہ اخراجات کئے جاتے ہیں۔ کیا یہ اضافی اخراجات معیشت پر بوجھ نہیں ہیں؟دوسرے ذرا اس ٹینڈر کا طریقہ کار ملاحظہ فرمائیں۔ ادارے کے اعلیٰ افسران سے لیکر فروخت کار تک جتنے لوگ اس ٹینڈر کے کھلنے سے لیکر اس سامان کی مکمل ترسیل تک شامل (ملوث)ہوتے ہیں ان کا اس میں " کمیشن " طے ہوتا ہے۔ یوں سامان کی قیمت اصل مارکیٹ قیمت سے کئی گناہ زیادہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح سے ــ"کمیشن " یہ کام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے ٹینڈر پر ہوتا ہے۔ بڑے بڑے سرکاری منصوبوں میں اس " کمیشن کی شرح" (Rate)اور بڑھ جاتی ہے۔ زیادہ دورنہ جایئے جب بغیرمنصوبہ بندی کے سارے ملک میں سی این جی اسٹیشنز کا جال بچھایا جارہا تھا۔سی این جی اسٹیشنزکھولنے سے پہلے حکومتی اجازت نامہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس اجازت نامے کو جاری کرنے پر " کمیشن" کے نام پہ بہت سا پیسہ کمایاگیا۔ پھر گیس کوکمپریس(Compress)کرنے کے لیے جو" کٹس" (Kits)درآمد کی گئیں ان پر درآمدی ڈیوٹی سے لیکرسی این جی اسٹیشنزمالکان تک پہنچنے میں کمیشن کمایاگیا۔ اور یہ کمیشن کی وہ رقم ہوتی ہےجو خزانے میں جمع ہونے کے بجائے ذاتی خزانوں میں اضافہ کرتی ہے۔ ان سی این جی اسٹیشنز کوکھولنے کی اجازت دیتے وقت یہ بھی خیال نہ رکھا گیا کہ " یہ کھولے کہاں" جارہے ہیں؟ رہائشی علاقوں، اسپتال کے پاس یا اسکولوں کے نزدیک۔ کیونکہ جتنی غلط جگہ کا انتخاب ہوگا اتنا زیادہ کمیشن اس کی اجازت دینے پرملے گا۔ لوگوں کی جان جائے یا کوئی حادثہ ہو ذمہ دار تو حکومت ہوتی ہے کمیشن کھانے والوں کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔توجناب اسٹیشنری کی خریداری سے لیکر، درآمدی وبرآمدی اشیاپر ڈیوٹی سے لیکر، طیاروں کی خریداری ہو، ریل کے انجنوں اور ڈبوں کی خریدی کا معاملہ ہو غرض ہر مرحلہ پر " کمیشن" کا خاص خیال رکھا جاتاہے اب بھلے سے طیارے دوران پرواز تباہ ہوجائیں یا ٹرین کے انجن فیل ہوجائیں نقصان تو عام آدمی کا ہوگا۔ خواص کو تو " کمیشن" مل جائے گا۔ اب عوام ہی کے ٹیکس سے ان عام آدمیوں کو (موت اور زخم)ازالہ کے پیسے دیئے جائیں گے۔ جس کے لیے بڑھ بڑھ کر دعوے کئے جائیں گے اور احسان جتائے جائیں گے لیکن کیا کبھی کمیشن لینے والوں نے کمیشن لیتے ہوئے یہ سوچا ہے کہ جیسے ملاوٹ شدہ اشیاء یا غیرمعیاری اشیاء کی خریداری کرتے ہوئے یہ اس کے نقصانات کو نہیں سوچتے۔ کل کو کہیں ان کے زیراستعمال غیرمعیاری اشیاء جس کو خریدتے ہوئے انہیں بہت خوشی ہوئی تھی ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہو۔ اور کوئی اور اپنے کمیشن کی رقم خوشی خوشی بیٹھا گن رہا ہو۔



.
تازہ ترین