• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک چین اقتصادی راہداری کے سمندری راستے کی حفاظت کیلئے گزشتہ روز چین سے جدید ترین ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس دو بحری جہازوں ہنگول اور باسول کا گوادر کی بندرگاہ پر پاک بحریہ کے حوالے کیا جانا بلاشبہ ایک اہم ضرورت کی تکمیل کے مترادف ہے۔ چین میں تیار ہونے والے یہ دونوں جہاز اب پاکستان نیوی کا حصہ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ چینی حکومت پاکستان کو دشت اور ژوب نامی دو مزید بحری جہاز بھی فراہم کرے گی جن کی تیاری چین میں تیزی سے جاری ہے ۔ پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان اور چین ہی نہیں بلکہ فی الحقیقت پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کا انقلابی منصوبہ ہے جس کے ثمرات سے کرہ ارض کی آبادی کا بہت بڑا حصہ براہ راست مستفید ہوگا۔ اس کے سبب عالمی امور میں چین اور پاکستان کی اہمیت بھی یقیناً کئی گنا بڑھ جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ منصوبہ پاکستان اور چین کے روایتی حریفوں کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ ان کی اس کفیت کا اظہار ان کی جانب سے کھلے لفظوں میں بھی ہوتا رہا ہے اور اسے ناکام بنانے کیلئے ان کے متعدد سازشی اقدامات بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پاک چین اقتصادی راہداری کو برملا ناقابل قبول قرار دیتے رہے ہیں اور یقینی شواہد کے مطابق بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اس منصوبے کو نقصان پہنچانے کیلئے سرگرم ہیں جبکہ ایسے اشارے بھی سامنے آچکے ہیں کہ بھارت کی سرپرست عالمی طاقت بھی سی پیک کو اپنے بین الاقوامی اثر و رسوخ کیلئے خطرہ تصور کرتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ منصوبے کو نہ صرف کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے تمام خامیوں سے پاک حفاظتی انتظامات کیے جائیں بلکہ انہیں مستقل حیثیت بھی دی جائے تاکہ راہداری پر ہونے والی اقتصادی سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش کبھی کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ امر اطمینان بخش ہے کہ پاکستان اور چین کی سیاسی اور عسکری قیادتیں اس مقصد کیلئے پوری طرح مستعد ہیں۔ چنانچہ سی پیک کے سمندری راستے کی حفاظت کے ساتھ ساتھ گوادر کی بندرگاہ اور خشکی کے راستوں کی حفاظت کے بھی مستحکم انتظامات کیے گئے ہیں اور اس کیلئے پاکستان آرمی کے ایک نئے ڈویژن کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جو اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہا ہے۔ چینی جہازوں کو پاک بحریہ کے حوالے کیے جانے کی تقریب سے اپنے خطاب میں وائس ایڈمرل عارف اللہ حسینی نے بجاطور اسے تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری منصوبہ ایک حقیقت ہے جو چین اور پاکستان کیلئے گیم چینجر ثابت ہوگا اور پورا خطہ اس سے فائدہ حاصل کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک بلوچستان میں تعمیر و ترقی کے نئے دور کے آغاز اور ہزاروں بلوچ نوجوانوں کیلئے روزگار کا سبب بنے گا۔ بلاشبہ پاکستان کے عام لوگوں بالخصوص آزادی کے سات عشروں کے بعد بھی پسماندگی اور محرومی کے شکار علاقوں کے عوام کی خوشحالی حکومت پاکستان کیلئے اقتصادی راہداری کا اصل ہدف ہونا چاہئے۔ بلوچستان، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان سمیت ملک کے تمام پسماندہ علاقوں کو اس منصوبے سے بھرپور طور پر مستفید ہونے کے مواقع فراہم نہ کیے گئے تو یہ عظیم الشان منصوبہ قومی اتحاد اور یکجہتی کے بجائے انتشار اور افتراق کو بڑھانے کا باعث ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ امرانتہائی توجہ طلب ہے کہ اس حوالے سے چھوٹے صوبوں کی جانب سے اب تک وقتاً فوقتاً بے اطمینانی کا اظہار کیا جاتا رہتا ہے ۔بعض معتبر تجزیہ نگار بھی اپنی تحریروں اور ٹی وی پروگراموں میں اس منصوبے کے بیشتر فوائد ایک ہی صوبے تک محدود رکھے جانے کے خدشات کا اظہار اور حکمرانوں پر غلط بیانی کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں جبکہ پاکستان کی تقدیر بدل دینے کی صلاحیت رکھنے والے اس منصوبے کو پورے ملک کی یکساں ترقی کا ذریعہ بناکر ہی قومی اتحاد اور اتفاق کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے، لہٰذا سی پیک کے حوالے سے تمام خدشات کا جلد از جلد مکمل ازالہ بھی کم از کم اتنا ہی ضروری ہے جتنا بیرونی خطرات سے اس کی حفاظت کا یقینی بندوبست۔

.
تازہ ترین