• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
زندگی اور موت دو جڑواں بہنیں ہیں، مگر کبھی زندگی موت جیسی محسوس ہوتی ہے اور کبھی موت زندگی سے بھی زیادہ خوبصورت لگتی ہے۔ یہ اپنے اپنے نصیب کی بات ہے، مجھے یہ تمہید مجبوراً باندھنا پڑی ہے ورنہ اس وقت مجھے موت کے حوالے سے کچھ ایسے واقعات یاد آرہے ہیں جنہیں قلمبند کرنا اتنا مناسب تو نہیں مگر قلم کو روکنا مشکل محسوس ہو رہا ہے ۔مثلاً میرے ایک دوست تھے جو اپنے لواحقین کو گاہے گاہے یہ نصیحت کرتے کہ جب وہ وفات پائیں تو فلاں بزرگ کو خاص طور پر جنازے میں شرکت کے لئے کہیں کہ شاید اس نیک شخص کی وجہ سے ان کی مغفرت ہو جائے۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ انہوں نے جس شخص کو بھی اپنے جنازے میں شمولیت کے لئے ’’نامزد ‘‘ کیا وہ خود چند دنوں بعد فوت ہو گیا اور ایسا ایک آدھ دفعہ نہیں دس بارہ دفعہ ہوا اس کے بعد تو یار لوگوں نے یہ وتیرہ بنا لیا کہ اپنے کسی دشمن کی نیکیوں کی داستان میرے اس دوست کو سناتے جس پر میرے یہ دوست اسے بھی اپنے جنازے میں شرکت کا پیغام بھجوا دیتے جب اس حسن اتفاق یا سوئے اتفاق کی شہرت دور دور تک پھیلی تو لوگ میرے اس دوست کےپاس آتے اپنے فرض شناسوں کی داستان انہیں سناتے اور ان کی نیکیاں ان کو یاد دلاتے ہوئے گزارش کرتے کہ آپ میرے جنازے میں ضرور شامل ہوں، شاید آپ کی وجہ سے میں بھی بخشا جائو جس پر میرے یہ دوست اپنے جنازے میں شامل ہونے والے افراد کی فہرست سے ان کا نام نکال دیتے ۔اورینٹل کالج سے وابستہ میرے ایک پروفیسر صاحب نے لمبی عمر پائی اور انہوں نے 95برس کی عمر میں انتقال کیا۔ وہ شاید مزید کچھ عرصہ زندہ رہتے، لیکن ہوتا یوں تھا کہ شہر میں جب کوئی کم عمری میں انتقال کر جاتا تو ان کے دوست میرے ان پروفیسر صاحب کی موجودگی میں اس مرگ کی تعزیت کرتے ہوئے کہتے یہ اللہ کے کام ہیں انسان بے بس ہے وہ بچارا اتنی کم عمر میں انتقال کرگیا اللہ تعالیٰ آپ کو مزید لمبی عمر عطا کرے۔ورنہ باری تو آپ کی تھی اور ایسا متعدد بار ہوا جب کبھی انہیں یہ خبر سنائی جاتی وہ اگلے ہی روز کالے بکرے کی قربانی دیتے۔ ایک دفعہ میرے یہ پروفیسر صاحب حسب عادت لمبی سیر پر نکلے واپس گھر آئے انڈوں اور پراٹھوں کا ناشتہ کیا انہوں نے گھر والوں کو ہدایت کر رکھی تھی کہ شہر میں جب کبھی کوئی جوان فوت ہو اس دن کسی ملاقاتی کو گھر میں داخل نہ ہونے دیا جائے مگر اس روز دروازے پر دستک ہوئی ان کے بیٹے نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ پروفیسر صاحب کے دوست مٹھائی کا ڈبہ ہاتھوں میں تھامے کھڑے ہیں صاحبزادے نے یہ سوچ کرکہ کوئی خوشی کی خبر ہے انہیں اندر بلالیا اور سیدھا پروفیسر صاحب کے کمرے میں لے گیا۔ اس نے پروفیسر صاحب سے معانقہ کیا اور خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پوتا عنایت کیا ہے پروفیسر صاحب نے بہت خوشدلی سے انہیں مبارک باد دی، دوستوں کا ذکر چھرا تو پروفیسر صاحب نے پوچھا ’’اظہر زیدی صاحب کا کیا حال ہے بہت اچھا برخوردار ہے ‘‘ دوست نے جواب دیا وہ تو پچھلے ہفتے انتقال کر گیا ہے بس اللہ کے کام ہیں باری تو آپ کی تھی !‘‘اس کے بعد دوست نے پوچھا ’’آپ کی صحت کیسی ہے ؟‘‘ آگے کوئی جواب نہ آیا اللہ کے کام ہیں جواب کیسے آتا، پروفیسر کی باری آ گئی تھی !
میرے ایک بہت عزیز دوست کے والد وفات پاگئے ہم سب دوست اس کے جنازے میں شریک تھے اور انہیں دلاسا دینے کی کوشش کر رہے تھے۔مگر دوست شدید صدمے کی حالت میں تھا وہ دھاڑیں مار مار کے رو رہا تھا اسی دوران اس نے بین کرتے ہوئے کہا ’’ابا جی !آپ کو کریلے بہت پسند تھے ‘‘اورپھر ہچکیوں کے دوران چیخ مار کر کہا ’’اب کریلے کون کھائے گا‘‘ اس کے تھوڑی تھوڑی دیر بعد یہی آواز سنائی دیتی ’’ابا جی آپ کو کریلے بہت پسند تھے ..اب کریلے کون کھائے گا ....؟
اس کے بعد قبرستان تک کے سفر میں جب یہ آواز کانوں میں پڑتی ابا جی ، آپ کو کریلے بہت پسند تھے ...ہائے اب کریلے کون کھائے گا ..تو ہم دوست رومال اپنی آنکھوں پر رکھ لیتے ،آنکھوں سے پانی جو بہنے لگا تھا!

.
تازہ ترین