• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اچھا کام کرنیوالے کو بُرا کام کرنے والے نہیں روک سکتے
وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے: دہشت گردوں، فرقہ پرستوں کے لئے الگ قوانین تیز ترین عدالتی نظام لائیں گے۔ پیپلز پارٹی کو مجھ سے کیا تکلیف ہے سب جانتے ہیں۔
ویسے تو داخلہ کے چوہدری صاحب کا ہر بیان ہر پریس کانفرنس تیز گام ہوتی ہے، لیکن ان کا آج کا چھپا ہوا بیان تو برق گام ہے، سعد رفیق چاہیں تو ایک ٹرین ’’برق گام‘‘ چلا سکتے ہیں نام اچھا ہے۔ بہرحال وزیر داخلہ اپنی وزارت کا کام ملک و قوم کے عظیم تر مفاد میں کرتے رہیں، اور اگر وہ مطمئن بھی ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری، ایمانداری سے نبھا رہے تو پھر پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور اپنی دھن میں مگن کام کرتے رہیں، ٹنڈے لاٹ کی پروا نہ کریں، ہاں دہشت گردوں فرقہ پرستوں بلکہ فرقہ پروروں کے لئے الگ قوانین ضرور بنائیں تاکہ پٹہ قاتل کی گردن پرفٹ بیٹھے، بعض اوقات ایک شخص جب پورے معاشرے کی جان کے لئے خطرہ بن جائے تو اس کے قتل میں معاشرے کی حیات ہے، اس لئے اب تک ہماری جو ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں ان کا باعث یہی فرقہ پرستی، دہشت گردی تھی اور اگر اس کے مکمل خاتمے کیلئے خصوصی سخت قوانین نہ بنائے گئے تو وزارت داخلہ پر جو اعتراضات اٹھیں گے وہ کسی کے پیٹ میں مروڑ نہ ہوں گے، بلکہ حقیقی توڑ ہوں گے، کسی بھی وزیر کا ضمیر مطمئن ہے تو آواز مخالفین اس کا رزق کم نہ کر سکیں گے، نہ اس کے کام میں روڑے اٹکا سکیں گے، چوہدری صاحب اگر ہو سکے تو اپنی پریس کانفرنسوں کی لمبائی چوڑائی بھی کم کریں، بس کام کام اور کام سے کام رکھیں، مخالف آوازیں تو سب کے ساتھ رہتی ہیں، مگر صحیح کام کرنے والے گھبرایا نہیں کرتے اور جوابِ آں غزل بھی نہیں دیا کرتے، دہشت گردوں کا منکا تو ٹوٹ چکا ہے پھر بھی اگر کسی اینٹ کے نیچے موجود ہوں تو اس پر قانون کا بھاری پتھر رکھ دیں، دم گھٹ کر مر جائیں گے اور معاشرہ جی اٹھے گا۔
٭٭٭٭
سوئی ناردرن! یہ امتیازی سلوک کیوں؟
غریب عوام کے علاقے جنہیں حسنِ سماعت کے لئے "Low Lying Areas"کہا جاتا ہے، وہاں گیس سپلائی Lowبھی نہیں Noہے، مگر کتی مرے فقیر دی‘‘ یا ’’مرن دو چار گوانڈناں‘‘ اس سے ’’مرزے یار‘‘ کو کیا فرق پڑھتا ہے، ’’اور صاحباں‘‘ کی صحت پر کیا اثر پڑتا ہے، چولہا تو بجھا سا رہتا ہے غریب کا، کیونکہ وہ پوش علاقوں میں نہیں بیہوش علاقوں میں رہتا ہے، ہم نے کسی پر تہمت نہیں لگائی، پہلے تحقیق کی کہ کیا پوش علاقوں کی آسمانی مخلوق بھی گیس کی شدید قلت اور پریشر کی انتہائی کمی کا شکار ہے، تو اطلاعات موصول ہوئیں کہ ان کے ہاں تو گیس ’’باں باں کرتی آ رہی ہے، اور عام لوگوں کی بستیوں میں ناں ناں کرتی آ رہی ہے، ہم کنفیوژ رہے کہ فریاد سوئی ناردرن سے کریں کہ خادم پنجاب سے، پھر سوچا کہ ذمہ دار تو متعلقہ محکمہ ہے اس سے گلہ کرتے ہیں، اور ساتھ یہ بھی پوچھ لیتے ہیں کہ کس کے ایماء پر عوام کو محروم رکھا ہوا ہے اور خواص کے لئے گیس بمعہ پریشر غل مچاتی ہوئی آ رہی ہے، کیا حکمرانوں کے ’’غریب خانوں‘‘ کی گیس، بجلی بھی کبھی بند تو کیا کم بھی ہوئی؟؎
گیس بجلی برستی ہے تو اشرافیہ کے شانوں پر
اور بجلیاں گرتی ہیں فقط غریبوں کے دولت خانوں پر
واضح رہے غریب کا گھر دولت خانہ اور امیر کا غریب خانہ کہلاتا ہے، کیونکہ سب کچھ وافر پا کر اشرافیہ کو انکساری کا بڑا شوق ہوتا ہے، ہم سوئی ناردرن سے بھی شکایت کر کے کیا پا لیں گے، کہ وہ بھی تو زلف اقتدار کا اسیر ہے، اس کے افسران اطاعت کرتے ہیں تو پوش علاقوں میں رہتے ہیں، ہم بات کر رہے ہیں ان کی جن کی تعداد کے زور پر حکمران زمین سے آسمان پر پہنچتے ہیں، اور جن کے بلز کی ادائیگیوں سے متعلقہ محکمے کو تنخواہیں ملتی ہیں، آخری سوچ یہ ہے گلہ محکمے سے ہے نہ حکومت سے ہم اب یہ شکایت بارگاہ ایزدی میں پیش کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
نہ ہر کہ سر بترا شد قلندری داند
سرخیکا مطلب ہے ’’ٹنڈ‘‘ کرانے سے کوئی قلندر نہیں بن جاتا۔ آج ہمارے اردگرد گیٹ اپ زیادہ اور اپ رائٹ بہت کم ہے، مثلاً ڈبہ پیر، ڈبل شاہ، ڈبہ پیک الیکٹرانکس ڈبہ اسکول، ڈبہ اکیڈمیاں، الغرض گھوسٹ بھی ڈبے میں بند ہے، اس لئے کسی گھوسٹ اسکول کا کوئی کیا بگاڑ سکا ہے، اقبالؒ نے اوپر مذکور مصرع کے ساتھ ایک مصرع اور بھی کہا تھا کہ؎
نہ ہر کہ چائے بنوشد ابوالکلام شود
(ہر چائے نوش ابوالکلام نہیں کہلاتا)
ہم نے دیکھا ہے کہ بعض افراد قیمتی قلم سے نوائے سروش برآمد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کوئی شاعرانہ وضع قطع اختیار کر کے شعر گوئی پر اتر آتے ہیں، تو ضروری نہیں کہ آپ ظاہر ہی کو باطن سمجھیں بلکہ ظاہر پر کچھ عرصہ تحقیق کر کے تعین کر لیا کریں کہ کون کیا ہے اور کیا چیز کیا ہے، علامہ صاحب نے تو یہ شبہ آسمان پر بھی ظاہر کرتے ہوئے فرمایا؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
ہاں ایک بات مرشد اقبال کی بھی سن لیں، رومیؒ مثنوی میں فرماتے ہیں؎
کار پاکاں را قیاس از خود دگیر
کہ پاک لوگوں کے کاموں کو اپنے کاموں پر قیاس مت کیا کرو، دیکھتے نہیں کہ شیر و شِیر لکھنے میں ایک جیسے ہیں مگر ایک درندہ ہے ایک دودھ، باتیں جو کرنی چاہئیں بہت ہیں مگر ہمیں امر ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنا ہے، ویسے آپس کی بات ہے کہ ہمارے پاس دریا کب ہے، جو اسے کوزے میں بند کریں۔ ہمارا دوش تو یہ ہے کہ کوزہ اتنا بڑا بنا لیتے ہیں کہ اس میں ڈالنے کو ہمارے پاس کچھ نہیں ہوتا سکھی رہیں خوش رہیں!
٭٭٭٭
وما علینا الاالبلاغ
....Oسعید غنی:چوہدری نثار کالعدم تنظیموں کے ترجمان بن گئے،
سچ کہتے ہیں چوہدری ہوری کہ پی پی ان کے پیچھے پڑ گئی ہے،
....Oپاکستان اب پھر امید سے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کے حق میں فیصلہ کرے گی،
اچھی بات ہے وابستہ رہ ٹرمپ سے امید بہار رکھ!
....Oسعودی مفتی اعظم:سینما اور موسیقی، اخلاقی زوال کا سبب بن سکتے ہیں،
الحمدللہ ہمارے ہاں تو دونوں باقی نہیں رہے،
....Oوزیراعظم طویل غیر ملکی دورے پر ڈیووس جا رہے ہیں،
موسم بڑا بے ایمان ہے
آنے والا کوئی طوفان ہے


.
تازہ ترین