• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
خدا کسی کو یہ دن نہ دکھائے مگر فرض کریں آپ کا بیٹا،آپ کا بھائی یا آپ کا شوہر کسی کام کے سلسلہ میں تھوڑی دیر کا کہہ کرگھر سے باہر جائے اور پھر واپس نہ آئے ۔آپ پریشانی کے عالم میں اس کے موبائل فون پر کال کریں تو نمبر بند ملے ۔تمام دوستوں سے خبر لینے اور ہر جگہ تلاش کرنے کے باجود کوئی سراغ نہ ملے اور پتہ چلے کہ آپ لاپتہ افراد کے ان لواحقین میں شامل ہو چکے ہیں جن کی قسمت میں اب رونا دھونا ہی لکھا ہے تو کیا کیفیت اور کیا جذبات و احساسات ہونگے؟یہ احساس کس قدر اذیت آمیز ہے کہ اب پولیس ،عدالت ،حکومت سمیت کوئی ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ تاوان دیکر بھی اپنے پیاروں کو واپس نہیں لایا جا سکتا۔اب یا تو لاپتہ ہونے والے شخص کی مسخ شدہ لاش بر آمد ہوگی یا پھر قسمت اچھی ہوئی تو کسی دن زندہ لاش بن کر لوٹ آئے گا۔اور اگر اٹھانے والوں کا خیال ہے کہ آپ اس سے کہیں زیادہ سخت سزا کے مستحق ہیں تو پھر کوئی خبر نہیں آئے گی اور آپ سب بھی لاپتہ ہونے والی کی یاد میں زندہ لاشیں بن کر رہ جائیں گے۔ایسی ناانصافی پر میری قوم کے دانشور گھبرا کر کہتے ہیں یہ تو جنگل راج ہے مگر میرا خیال ہے جنگل کا بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔یہاں تو بات اس سے بھی کہیں آگے بڑھ چکی۔جنگل میں سانپ ڈستا ہے ،شیر چیر پھاڑتا ہے،ہاتھی روند ڈالتا ہے تو جنگل کے باسی اس کی جبلت سے خوب واقف ہوتے ہیں اور اپنے تحفظ کا اہتمام خود کرتے ہیں ۔کاٹ کھانے والے درندے کسی کی حفاظت کا ناٹک تو نہیں کرتے۔کوئی اس خوش فہمی میں تو نہیںمارا جاتا ناں کہ ریاست یا حکومت جان ومال کا تحفظ کرے گی یا عدالتیں بنیادی حقوق کی ضامن ہیں۔
المیہ تو یہ ہے کہ نہ ہمارے حالات بدلتے ہیں اور نہ بطور تمثیل پیش کی جانے والی حکایات تبدیل ہوتی ہیں۔ایک مرتبہ پھر جرمن پادری مارٹن نیمولر یاد آرہا ہے جس نے انواع واقسام کے تعصبات میں گھرے جرمن معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری کو اپنی نظم کے ذریعے آشکار کیا۔ہٹلر کا پرآشوب دور تھا،انسانی حقوق پامال ہو رہے تھے،آئے روز جولوگ اٹھائے جاتے ان کے مخالفین ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے بغلیں بجاتے۔مارٹن نیمولر نے لکھا:’’پہلے وہ سوشلسٹوں کو پکڑنے آئے،میں یہ سوچ کر خاموش رہا کہ میں تو سوشلسٹ نہیں ہوں۔پھر ٹریڈ یونین والوں کی باری آئی تو میں نے چُپ سادھ لی کیونکہ میں کسی ٹریڈ یونین کا حصہ نہیں تھا۔جب وہ یہودیوں کو اٹھانے آئے تب بھی میں نہ بولا کیونکہ میں تو عیسائی تھا۔اس کے بعد وہ کیتھولکس پر ستم ڈھانے لگے تو بھی میں لاتعلق رہا کیونکہ میں تو پروٹیسٹینٹ تھا۔اور پھر میری باری آگئی ،جب وہ مجھے لے جانے لگے تو تب تک بولنے کے لئےکوئی بچا ہی نہ تھا۔‘‘
گروہی ،لسانی ،علاقائی ،مذہبی اور مسلکی تعصبات کا شکار ہمارے معاشرے پر بھی یہ مثال کس قدر صادق آتی ہے۔جب باریش لوگ لاپتہ ہو رہے تھے تو لبرل خوش تھے ،بلوچستان سے مسخ شدہ لاشیں مل رہی تھیں تو پنجاب سے کوئی آواز نہیں اٹھ رہی تھی اور اب سیکولر نظریات کے حامل بلاگرز ’’مسنگ پرسنز‘‘ کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں تو جولوگ جشن منا رہے ہیں آپ کے علم میں ہے۔خدا جانے الزام ہے ،بہتان یا پھر حقیقت کہ اٹھائے گئے بعض افراد سوشل میڈیا پر ایسے پیج چلا رہے تھے جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات اورعقائد کی دل آزاری کی جاتی تھی۔اظہار رائے کی آزادی مہذب معاشروں کا بنیادی جزو اور جمہوریت کا ناگزیر حصہ ہے مگر یہ کسی ’’بھینسے ‘‘ کا نام نہیں جو تمام حدود و قیود کو پامال کرتے ہوئے رواداری ،مروت اور شائستگی کو ہی کچل ڈالے۔لیکن سوال یہ ہے کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو سائبر کرائمز ایکٹ کس مرض کی دوا ہے؟ان افراد کو قانونی طریقے سے گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جاتا اور قابل اعتراض مواد پیش کرکے سزا دلوائی جاتی۔قابل غور بات یہ ہے کہ جو قابل اعتراض پیجز زیر بحث ہیں ،ان کی رسائی تو محض چند ہزار افراد تک تھی۔ان سے کہیں بڑے مجرم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان بلاگرز کی گستاخی کے ابلاغ کا اہتمام کیا اور اب بھی سوشل میڈیا پران خیالات کے پرچار کا باعث بن رہے ہیں۔یہ تو سراسر ناانصافی ہے کہ ایک شخص کو لاپتہ کرنے کے بعد اس کی عدم موجودگی میں اس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے ۔
یادش بخیر چند روز قبل ہی وزیراعظم نے لکھنے والوں کو ’’ضرب ِقلم‘‘ پر اکسایا تھا مگراہل قلم کے اڑنے سے پہلے ہی ان کے خلاف ’’ضربِ عضب ‘‘ شروع ہو گیا۔اکسانے اور ممولے کو شہباز سے لڑانے والوں کی اپنی لاچارگی و بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وزیرداخلہ چوہدری نثار فرماتے ہیں کہ وہ اٹھانے والوں سے رابطے میں ہیں اور جلد ہی ان افراد کو بازیاب کروا لیا جائے گا۔باالفاظ دیگر انہیں ناصرف یہ معلوم ہے کہ اٹھانے والے کون ہیں بلکہ وہ یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ منت سماجت سے ہی لوگوں کو چھڑوایا جا سکتا ہے۔جب بیک وقت کئی متوازی حکومتیں چل رہی ہوں تو گھمسان کا رن کیوں نہ پڑے۔
بعض عاقب نااندیش لوگ اظہار رائے کی آزادی کو بھی منہ زور ’’بھینسا ‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ان کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ضرور کارروائی ہونی چاہئے۔،ہمیں اس ناانصافی کے خلاف کسی اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کے بغیر آواز اٹھانا چاہئے۔کسی بھی شخص کو لاپتہ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی خواہ اس کا جرم کتنا ہی سنگین کیوں نہ ہو۔ہمیں اپنے بچائو کی تدبیر کرنی ہے تو نیشنل جیوگرافک پرکوئی ڈاکومنٹری دیکھیں اور غور کریں جب کسی حملے کا خطرہ ہو تو اس سے بچنے کے لئےکیا حکمت عملی اور تدبیر اختیارکی جاتی ہے۔ہمارا حقیقی اور اصل دشمن گروہی ،لسانی ،علاقائی ،مذہبی اور مسلکی تعصبات ہیں جو ہمیں متحد نہیں ہونے دیتے اور لخت لخت کر کے ہمارے شکار ہونے کا کام آسان کر دیتے ہیں۔

.
تازہ ترین