• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سوال یہ نہیں ہے کہ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی جائے یا نہیں بلکہ اہم معاملہ حکومتی ترجیحات کا ہے جن میں دہشت گردوں کو سزا دینے کا جامع اور جمہوری نظام وضع کرنے کے عزم کا فقدان واضح نظر آتا ہے۔ یہ نصف صدی کا قصہ نہیں صرف دو سال پہلے کی بات ہے کہ آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے بدترین حملے نے نظریہ ضرورت کے تحت جمہوریت پسندوں سے غیر جمہوری اقدام پر مہر تصدیق ثبت کرا لی اور میاں رضا ربانی جیسے آئین کی پیروی کرنے والے نے بھی بہ امر مجبوری نم آنکھوں سے غیر جمہوری آئینی ترمیم کے حق لیکن ضمیر کے خلاف ووٹ دے دیا۔ اکیسویں آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ 1952میں ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتیں دو سال کی مدت کیلئے قائم کی گئیں جن کا واضح مقصد تیز ترین ٹرائل کے ذریعے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانا تھا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے خلاف عدالت عظمی میں آئینی درخواستیں بھی دائر کی گئیں، عدالت عظمیٰ نے فوجی عدالتوں کے قیام کو آئینی جواز بخش دیا۔ یوں جنوری 2015میں ملک بھر میں قائم کی گئی 11فوجی عدالتوں نے وفاقی حکومت کی منظوری سے بھیجے گئے 275مقدمات کی سماعت کی۔ ان مقدمات میں 161دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی گئی جن میں سے 12کو تختہ دار پر لٹکا بھی دیا گیا۔ فوجی عدالتوں نے 160سے زیادہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قید کی سزائیں بھی سنائیں جن میں اکثریت کو عمر قید دی گئی۔ فوجی عدالتوں کی طرف سے دی جانے والی سزا کو سول عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مختلف حلقوں کی طرف سے دو سال میں فوجی عدالتوں کے مقدمات کی سماعت کے طریقہ کار، ملزمان تک رسائی نہ دینے، الزامات اور شواہد کی تفصیلات سے آگاہ نہ کرنے، بعض صورتوں میں مرضی کے وکیل کی خدمات حاصل نہ کرنے اور فیصلے کی کاپی تک فراہم نہ کرنے پر تحفظات ظاہر کئے جاتے رہے ہیں۔ دنیا بھر کے اعلیٰ ججز پر مشتمل انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے بھی فوجی عدالتوں سے متعلق مختلف سوالات اٹھائے جبکہ عاصمہ جہانگیر جیسے قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کا موقف تھا کہ انصاف صرف ہونا کافی نہیں بلکہ ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ دو سال قبل فوجی عدالتوں کے قیام کا سب سے بڑا جواز یہ فراہم کیا گیا تھا کہ ملک کے موجودہ فوجداری نظام انصاف کے تحت خطرناک جرائم میں ملوث مجرموں اور دہشت گردوں کو سزائیں دینا تقریباً ناممکن ہے، ججز اور گواہان کے عدم تحفظ اور ناکافی شواہد کی بنیاد پر اکثر دہشت گرد رہا ہو جاتے ہیں اور ریاست ہاتھ ملتی رہ جاتی ہے۔ صرف 2007ءسے 2014ءتک دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث 2ہزار خطرناک دہشت گرد عدم شہادتوں کے باعث رہا ہوئے تھے۔ مان لیا کہ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا اور انہی دلائل نے فوجی عدالتوں کیلئے نظریہ ضرروت کو جنم دیا تھا لیکن تب کی جانے والی آئینی ترامیم میں سن سیٹ کلازز یعنی دو سال کی مدت کی قدغن والی دفعات صرف اسلئےرکھی گئی تھیں کہ ان چوبیس مہینوں میں ملک کے فوجداری نظام انصاف میں موجود کمزوریوں کو دور کیا جائے گا، انسداد دہشت گردی سے متعلق ایسے قوانین وضع کئے جائیں گے کہ کوئی شر پسند، شدت پسند اور دہشت گرد قانون کی گرفت سے بچ نہ پائے لیکن کیا ہوا؟ آج دو سال بعد بھی ہم وہیں کھڑے ہیں بلکہ اس ضمن میں دو قدم اور پیچھے ہٹ چکے ہیں۔ گزشتہ سال جولائی میں تحفظ پاکستان ایکٹ کی مدت ختم ہوئی تو اس کے ساتھ ہی وہ خصوصی عدالتیں بھی تاریخ کا حصہ بن گئیں جو اس مخصوص قانون کے تحت وجود میں لائی گئی تھیں۔ اس قانون پر بھی بعض سیاسی جماعتوں کے تحفظات تھے۔ اس قانون کی مدت ختم ہونے پر بھی حکومت کے کانوں پہ جوں تک نہ رینگی تھی اور نہ یہ پروا کی گئی تھی کہ قانون کے خاتمے سے پہلے مستقبل کیلئے کوئی اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے، نتیجہ یہ نکلا کہ خصوصی عدالتوں میں چلنے والے سنگین مقدمات کی سماعت لٹک گئی، ان مقدمات کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں بھیجنے کا مبہم سا بیان دے کر جان چھڑا لی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ تحفظ پاکستان ایکٹ کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کسی مشکوک شخص کو حراست میں رکھنے کے جو خصوصی اختیارات سونپے گئے تھے وہ بھی ختم ہو گئے۔
حکومت انسداد دہشت گردی کی جن عدالتوں پہ تکیہ کر رہی ہے ان کی حالت زار یہ ہے کہ وفاقی وزیر ہاؤسنگ وتعمیرات اکرم خان درانی نے مجھے بتایا کہ اے ٹی سی کے ایک جج جن کے پاس ممبئی حملہ کیس سے لیکر دہشت گردی کے ہائی پروفائل مقدمات زیرسماعت ہیں، ان کے پاس رہنے کو چھت تک نہیں تھی اور درانی صاحب نے اپنے خصوصی صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے بڑی تگ و دو کے بعد جج صاحب کیلئے سرکاری رہائش گاہ کا انتظام کیا۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ جو سرکار انسداد دہشت گردی کے جج کو سر چھپانے کی جگہ فراہم نہ کر سکتی ہو وہ گواہان کے تحفظ کیلئے کیا کچھ کر سکتی ہے۔ تحفط پاکستان ایکٹ کی طرح فوجی عدالتوں کے قیام کی مدت کے خاتمے تک بھی حکومت خواب خرگوش سے نہیں جاگی۔ نہ تو فوجداری نظام انصاف میں موجود کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی اور نہ ہی ان کی مدت میں توسیع کیلئے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کیلئے بروقت مشاورت کی گئی جس سے دہشت گردوں کو سزائیں دینے کا عمل معطل ہو گیا۔ ضرب عضب کا کریڈٹ لینے میں پیش پیش حکومت کی ترجیحات کا عالم تو یہ ہے کہ سینیٹ آف پاکستان نے گزشتہ سال جنوری میں انسداد دہشت گردی ترمیمی بل 2015ءاور تحفظ گواہان بل 2015ءمتفقہ طور پر منظور کئے لیکن ایک سال گزر جانے کے باوجود حکومت انہیں قومی اسمبلی میں پیش نہیں کر سکی۔ وزیر اعظم کی طرف سے قانونی اصلاحات کیلئے ایک کمیٹی ضرور قائم کی گئی تھی لیکن وہ بھی فوجی عدالتوں کی مدت کے خاتمے سے پہلے کوئی متبادل حل پیش نہیں کر سکی۔ دسمبر 2015میں سینیٹ میں منظور کی گئی ساڑھے چار سو سے زائد صفحات پر مبنی رپورٹ نظام انصاف میں اصلاحات کے حوالے سے حکومت کیلئے ایک واضح روڈ میپ ہے کیوں کہ اس کی تیاری میں نہ صرف جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد، جسٹس ریٹائرڈ ماجدہ رضوی اور ایس ایم ظفر جیسے ملک کے مایہ ناز آئینی ماہرین کی تجاویز شامل ہیں بلکہ لاءاینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان اور انسانی حقوق کمیشن جیسے اداروں کی سفارشات بھی اس کا حصہ ہیں۔ اسی رپورٹ میں نظام انصاف میں اصلاحات لانے اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے آٹھ قانونی بل بھی تجویز کئے گئے جن میں سے مذ کورہ بالا دو سینیٹ نے منظور بھی کرلئے۔ سینکڑوں صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں بلخصوص آرمی ایکٹ اور 21ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں سفارشات دی گئی ہیں کہ مخصوص مدت کے قوانین کے خاتمے پر کیا قانونی اور انتظامی اقدامات کئے جانے چاہئیں تا کہ دہشت گردی کا سدباب یقینی بنایا جا سکے۔ ان سفارشات میں ایف آئی آر کے اندراج سے تحقیقاتی افسر کے کردار، پراسیکیوشن سے شہادتوں کی اہمیت، ججز اور گواہان کے تحفظ سے مقدمے کے فیصلے کے ٹائم فریم، انسداد دہشت گردی قوانین کے فاٹا تک نفاذ سے کرائم سین کو محفوظ بنانے اور پولیس کے سامنے دئیے گئے بیان کی قانونی حیثیت سے لے کر بار ثبوت پراسیکیوشن کی بجائے ملزم پر عائد کرنے تک سب شامل ہے۔ پاناما کے مقدمے میں الجھی حکومت اگر فوجداری نظام انصاف میں اصلاحات کیلئے خود کچھ نہیں کر سکتی تو سینیٹ سے منظور کی گئی اس انتہائی اہم متفقہ رپورٹ کی سفارشات پر ہی عملدرآمد کر لے تاکہ مستقبل میں نہ تو کسی نظریہ ضرورت کی نوبت آئے اور نہ ہی دہشت گردوں کی رہائی کے خدشات دوبارہ جنم لے سکیں۔

.
تازہ ترین