• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
صدر اوباما کے عرصہ اقتدار کا آغاز ہوا چاہتا تھا۔ 2009 ءمیں دنیا بھر سے 17نوجوان سیاستدانوں کو Transition of Power in U.S. Federal System کا مطالعہ کرنے اور صدر اوباما کی حلف برداری میں شرکت کے لئے دعوت دی گئی تھی۔ جن میں پاکستان کی نمائندگی میں کر رہا تھا۔ صدر بش کا عرصہ اقتدار ماضی بنتے دیکھنے اور پہلے سیاہ فام کو امریکہ کے صدر کے عہدے پر براجمان ہوتے دیکھنے سے زیادہ دلچسپی یہ تھی کہ اندازہ قائم کیا جا سکے کہ اس تبدیلی سے پاکستان اور اس سے متعلقہ معاملات میں کس نوعیت کی صف بندی کا امکان ہو سکتا ہے۔ مختلف امریکی سینیٹر اور تھنک ٹینک کے اراکین سے ملاقاتوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے میں دیر نہیں لگی کہ دھمکیاں اپنی جگہ مگر ایران کے حوالے سے فوجی کارروائی امریکی نگاہ میں خارج از امکان ہوتی چلی جا رہی ہے اور اس کا اظہار امریکہ سے واپسی پر اپنے کالم میں بھی کیا تھا کہ بہرحال ایران سے معاہدہ ہی ہو گا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات واضح تھی۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکہ کے دوست ہوں یا دشمن سب کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے سے قاصر نظر آ تے ہیں۔ فطری طور پر پاکستان کو اپنے متعلقہ معاملات سے زیادہ دلچسپی ہے اور ان میں امریکہ بھارت تعلقات کی گزشتہ 2عشروں میں اضافہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بھارت ہر وہ حربہ آزما رہا ہے کہ جس سے اس کو عالمی طاقتوں میں مقام حاصل ہو سکے۔ اس کے لئے جہاں اس نے اپنے تجارتی حجم کو بڑھایا ہے وہیںوہ امریکہ سے فوجی اتحاد کی طرف بھی بڑھنے کی بھر پور کوششیں کر رہا ہے۔ اور ان کوششوں کے سبب سے جہاں پاکستان ایک پریشانی کا شکار ہے وہیں روس بھی فکرمند ہے۔ مگر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد بھارت کے امریکہ سے فوجی اتحاد پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران اس معاملے کا بھر پور اظہار کرتے رہے ہیں کہ امریکہ اپنی پالیسی میں تبدیلی لائے گا اور اتحادوں میں جس طرح سے وہ اب ہے نہیں رہیگا۔ انہوں نے Alliances کی حکمت عملی کی 2ٹوک انداز میں مخالفت کی ۔ اگر وہ اپنی سوچ کو امریکی خارجہ پالیسی میں نافذ کرتے ہیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے پرانے اتحادی غیر یقینی کا شکار ہوںگے۔ ایسی صورت حال میں واشنگٹن اور نئی دہلی کا کسی نئے فوجی اتحاد کو تشکیل دینا بعید از قیاس نظر آتا ہے اور یہ کیفیت پاکستان اور روس دونوں کے لئے بہرحال خوشگوار ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود امریکہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ نیوکلیئر شعبے میں مزید تعاون کی ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں توقع کی جا رہی ہے کیونکہ بہرحال یہ بہت بڑا تجارتی شعبہ ہے۔ امریکہ اس سے بہت زیادہ مالی مفادات حاصل کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ روس کے لئے بھی پریشانی کا باعث ہو گا کیونکہ اس صورت میں بھارت کو امریکہ اپنے مقاصد کے لئے کسی فوجی اتحاد کے بغیر زیر اثر رکھ سکے گا اور ایسی صورت میں پاکستان اور روس دونوں خطرہ محسو س کریں گے۔ جہاں بھارت سے فوجی اتحاد کھٹائی میں پڑتا محسوس ہو رہا ہے وہیں یہ حقیقت بھی ہمارے سامنے رہنی چاہئے کہ امریکہ افغانستان کو دی جانے والی امداد اور دیگر سہو لتوںکے بڑے حصے سے دست بردار ہو سکتا ہے۔ اور کوشش کر سکتا ہے کہ یہ مالی معاملات نیٹو یا کسی اور ذریعے سے پورے کئے جائیں کہ جس کا امکان کم ہے۔ ایسی صورت میں افغانستان میں داخلی عدم استحکام بہت تیزی سے بڑھ سکتا ہے کہ جس کے اثرات پاکستان وسطی ایشیاء اور روس تک پڑ سکتے ہیں۔ امریکہ کے حوالے سے اس بات کا بھی امکان موجود ہے کہ وہ پاکستان کی جتنی بھی امداد افغانستان کے حالات کی وجہ سے کرتا ہے اس سے ہاتھ کھینچ لے اور سخت رویہ اختیار کرے۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے ایسا کیا تو لامحالہ پاکستان کے لئے معاملات کو موجودہ نہج پر برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گاا ور پاکستان کو نئے امکانات تلاش کرنا ہو گا۔ نئے امکانات کو تلاش کرنے کے حوالے سے گفتگو سے قبل یہ واضح کر دوں کہ میری مراد امریکہ سے مخاصمانہ تعلقات قائم کرنے کی بابت نہیں ہے۔ بلکہ جن امور پر ہم کسی اور سے بہتر مفادات حاصل کر سکتے ہیں صرف ان امور کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلانا ہے۔ اس صورتحال کی دو جہتیں ہیں۔ اول تو امریکہ میں مفادات کو حاصل کرنے کے لئے متحرک کردار کے حامل افراد کو یہ ذمہ داریاں سونپنی ہونگی ۔یہ افراد نئی امریکی انتظامیہ کیلئے مانوس ہو اجنبی نہ ہو۔ دوسری جہت یہ ہے کہ افغانستان میں امن ، امریکہ کی جانب سے پاکستان سے ہاتھ کھینچ لینے اور بھارت سے تجارتی بنیادو ں پر نیو کلیئر تعلقات کی امریکی ممکنہ خواہش سے پاکستان اور روس دونوں کو اپنی اپنی پوزیشنوں کو تبدیل کرنا پڑے گا۔ اور اگر امریکہ نے اس نوعیت کے اقدامات اٹھائے تو یہ اقدامات پاکستان اور روس کو قریب لانے میں معاون ہو سکتے ہیں۔ مگر اس قربت سے مفادات کیسے حاصل کرنے ہیں۔ اس کے لئے دونوں ممالک کو ترجیحات متعین کر کے آگے بڑھنا ہو گا۔ مگر ایک رکاوٹ اس میں بہرحال موجود ہے کہ روس پاکستان کے حوالے سے آج تک سابقہ سوویت یونین کے دور میں قائم تصورات سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ پاکستان کے حوالے سے شبہات اور سرد مہری ابھی تک موجود ہے۔ حالانکہ بھارت اور امریکہ سرد جنگ کے درمیان قائم نظریات سے اپنا دامن چھڑا چکے ہیں۔ روس میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت کو تبدیل کرنا چاہئے۔ مگر اس میں اہم ترین کردار پاکستان کا ہونا چاہئے کہ وہ رو س سے آگے بڑھ کر ان خدشات اور تحفظات کو دور کرے کہ جن کی وجہ سے پاکستان اور روس وہ باہمی مفادات بھی حاصل کرنے سے محروم ہیں کہ جن کو حاصل کرنا دونو ں ملکوں کے مفاد میں ہے۔ خیال رہے کہ اگر ہم نے امریکہ کی نئی انتظامیہ کی حکمت عملی کے حوالے سے مئوثر لائحہ عمل اختیار نہ کیا تو مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔

.
تازہ ترین