• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آبادکاری کی اسرائیلی پالیسی پر امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی تنقید ،دیرپا امن کیلئے مسئلے کا دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے

کراچی (نیوز ڈیسک) ذیل میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی پریس کانفرنس کا مکمل متن پیش کیا جا رہا ہے جس میں انہوں نے اسرائیل کیخلاف اقوام متحدہ میں ہونے والی رائے شماری میں ووٹ نہ دینے کے فیصلے کی دلیل  پیش کی ہے۔ ’’آپ سب کا بہت بہت شکریہ۔ میں جانتا ہوں کہ یہ ہفتہ بھر کی تعطیلات کا درمیانی عرصہ ہے، میں سمجھتا ہوں، آپ سب کو نیا سال بہت بہت مبارک ہو اور یہ سال بہت اچھا ثابت ہو۔آج میں ایک ایسے مسئلے کے بارے میں بہت بے تکلفی کے ساتھ اپنے خیالات میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں جس پر کئی دہائیوں سے یہاں اور پوری دنیا میں خارجہ پالیسی پر بھرپور تبادلہ خیال جاری ہے اور وہ مسئلہ اسرائیلی فلسطینی تنازع کا ہے۔  صدر اوباما اپنے پورے دور میں اسرائیل اور اس کی سیکیورٹی کے حوالے سے بہت پرعزم رہے ہیں اور ان کی اس عزم نے مشرقِ وسطیٗ میں امن کی کوششوں کے بارے میں رہنمائی کی ہے، آپ سب جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر بطور وزیر خارجہ میں نے بہت زیادہ کام کیا ہے اور صرف ایک وجہ سے؛کیونکہ دو ریاستی حل وہ واحد راستہ ہے جس سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین پائیدار اور منصفانہ امن قائم ہوسکتا ہے۔ یہ واحد راستہ ہے جس کے تحت اسرائیل کے مستقبل کی بحیثیت یہودی و جمہوری ریاست ضمانت دی جاسکتی ہے، جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن اور سلامتی سے رہ سکے۔ یہ واحدراستہ ہے جو فلسطینی عوام کے لئے بھی باوقار اور آزاد مستقبل کا ضامن ہے اور یہ خطے میں امریکی مفاد ات کو بھی آگے بڑھانے کا ایک اہم راستہ ہے۔  اب میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مستقبل کیوں خطرے میں ہے  اور کچھ سیاق و سباق بھی دینا چاہتا ہوں کہ ہم کیوں نیک نیتی کے ساتھ اقوام متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد کی راہ میں کھڑے نہ ہوئے، جو یہ واضح کرتی ہے کہ دونوں فریقوں کو امن کے امکانات کو بچانے کے لئے اب لازما عمل کرنا چاہیے۔ میں یہاں اپنے اس یقین کا ظہار بھی کرنا چاہتا ہوں کہ اگر دونوںذمہ دار فریق عمل کرنے پر آمادہ ہوں تو اس کا راستہ اب بھی موجود ہے۔ میں یہاں عملی تجاویز بھی پیش کروں گا کہ دونوں فریق جس پائیدار اور منصفانہ امن کے مستحق ہیں اس پر کس طرح پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ ہمارے لئے تکلیف دہ سچائیوں اور مشکل فیصلوں کے بارے میں مخلصانہ اور واضع گفتگو اب بہت ضروری ہوچکی ہے کیونکہ اس کا متبادل اب بہت تیزی کے ساتھ برسرزمین حقیقت میں تبدیل ہورہا ہے اور یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے، یہ نہ اسرائیل، فلسطینیوں اور اس خطے اور نہ ہی امریکہ کے مفاد میں ہے ۔میں یہاں ایک اہم نکتے پر زور دینا چاہتا ہوں۔ میرا اولین کام امریکا کا دفاع کرنا ہے۔ دنیا میں اپنی اقدار کے لئے کھڑے ہونا اور ان کا دفاع کرنا۔ اگر ہم ان معاملات سے لاتعلق رہیں اور یہ بھی جانتے ہوں کہ ایسا کرنے سے ہم خطرناک صورتحال پیدا ہونے دے رہے ہیں جس سے خطے میں، جہاں ہمارے بہت اہم مفادات ہیں، زیادہ بڑا عدم استحکام اور تنازع پیدا ہوگا تو یہ ہمارا اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنا ہوگا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ امریکا سے دوستی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کو لازما کوئی بھی پالیسی اپنے مفادات،  اپنی پوزیشن، اپنے وعدوں اور اپنے اصولوںسے قطع نظر قبول کرلینی چاہیے۔ جب ہم بار بار زور دیتے رہے ہیں کہ پالیسی لازما تبدیل کردی جائے، دوستوں کو ایک دوسرے کو کڑوی سچائیاں بتانے کی ضرورت ہوتی ہے اور دوستی میں باہمی احترام قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں دو ریاستی حل سے اتفاق نہ کرنے والے اسرائیل کے مستقل مندوب  نے گزشتہ ہفتے رائے شماری کے بعد کہا کہ ’’ توقع یہ تھی کہ اسرائیل کا عظیم ترین اتحادی باہمی اقدار سے مطابقت رکھتے ہوئے عمل کرے گا‘‘ اور قراداد کو ویٹو کردے گا۔ میں آج یہ جواب دینے پر مجبور ہوں کہ امریکا نے ایسا ہی کیا ہے کہ حقیقت میں اپنی اقدار کے مطابق ہی ووٹ دیا ہے، جیسا کہ ہم سے پہلے کی انتظامیہ نے سلامتی کونسل میں کیا تھا۔ وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اس دوست ریاست ہائے متحدہ امریکا نے دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں اسرائیل کی سب سے زیادہ حمایت کی ہے۔ یہ وہی دوست ہے جس نے اس وقت اسرائیل کے قانونی وجود کو چیلنج کرنے کی تمام تر کوششوں کو ان گنت بار ناکام بنایا۔ ایسا نہ کرنا ہماری اپنی اقدار کے خلاف ہوتا، اور اسرائیل کی اعلان کردہ جمہوری اقدار کے بھی  خلاف ہوتا۔ اگر ہم نے قابل عمل دو ریاستی حل کو اپنی آنکھوں کے سامنے  ضائع ہونے دیا تو پھر ہم بھر پور طریقے سے اسرائیل کا تحفظ اور اس کا دفاع نہیں کر سکتے۔ ہم اسی کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، یعینی اسرائیل کے بطور جمہوری اور یہودی ریاست کے مستقبل کے لئے۔ جو اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن اور سلامتی سے رہ سکے اور اسی کو ہم اپنی اور ان کی خاطر بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔  درحقیقت یہ ہے کہ ہماری انتظامیہ اسرئیل کی سب سے بڑی دوست اور حمایتی رہی ہے۔  اسرائیل کے تحفظ اور اس کی قانونی بقا سے متعلق ہمارا موقف مضبوط ترین رہا ہے ۔ ا س حوالے سے میں یہ بیان کرنا ضرور ی سمجھتا ہوں کہ اسرائیل کے تحفظ کے لیے باراک انتظامیہ سے زیادہ کسی امریکی انتظامیہ نے کبھی اتنا کام نہیں کیا۔ اسرائیلی وز یرِاعظم خود،  عسکری اورا نٹیلی جنس سے متعلق ہمارے بے مثال تعاون کا اعتراف کرچکے ہیں ۔ اب ہماری جنگی مشقیں پہلے سے کہیں زیادہ جدت اختیار کرچکی ہیں۔ اسرائیل میں آئرن ڈوم کی تنصیب کے لئے ہمارے تعاون نے انگت اسرائیلیوں کی جانیں بچائیں۔ہم نے مسلسل اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کی حمایت کی ہے، غزہ میں (اسرائیلی) اقدامات کے دوران بھی جس سے شدید تنازع پیدا ہوا۔ وقتاً فوقتاً ہم نے اسرائیل کی حمایت کا کھلا مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے بہت بھرپور طاقت کے ساتھ بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر اسرائیل کے خلاف پابندیوں ، بائیکاٹ اوراس کو بدنام کرنے والی مہمات کا راستہ روکا ہے۔جب بھی  اور جہاں بھی اسرائیل کی قانونی حیثیت کو نشانہ بنایا گیا، ہم نے اقوامِ متحدہ کے نظام میں اس کو شامل کرنے کے لڑائی لڑی جبکہ اس دوران ہمارا مالی بحران اور بجٹ کا خسارہ بھی جاری تھا۔ ہم نے بار بار اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے فنڈز میں اضافہ کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے عالمی بیرونی فوجی امداد کا نصف سے زیادہ حصہ اسرائیل جو جاتا ہے۔ہم نے 38 ارب ڈالر کی تاریخی مفاہمت کی یادداشت مکمل کی ہے جو امریکا کی جانب سے فوجی امداد کے کسی بھی ملک کے لئے کسی بھی پیکج سے زیادہ ہے، اس کے ذریعے جدید ترین میزائل ڈیفنس میں سرمایہ کاری ہوگی اور آنے والے برسوں میں اسرائیل کو معیاری فوجی برتری قائم رکھنے میں مدد ملے گی، یہ ہماری جانب سے حمایت میں کیے جانے والے اقدامات ہیں۔ اسرائیل کی سلامتی کاعزم اصل میں میرے لئے بہت ذاتی مسئلہ ہے۔1986 میں نوجوان سینیٹر کے طور پر اسرائیل کے پہلے دورے پر، میں اس خصوصی ملک کے سحر میں مبتلا ہوگیا تھا، یہ ملک مجھے فوری طور پر پسند آگیا تھا اور جلد ہی اس کی محبت پیدا ہوگئی۔ کئی برسوں کے دوران دیگر ان لوگوں کی طرح جو اس غیرمعمولی جگہ گئے ہیں، میں نے مسادا پر چڑھا، بحرمردار میں تیراکی کی، بائیبل میں بیان کردہ ایک سے دوسرے شہر تک سفر کیا۔ میں نے سرحد کے پار لبنان میں حزب اللہ کے راکٹوں ذخیرہ کرنے کی تنصیبات کے تاریک پہلو کا بھی مشاہدہ کیا ہے، یادیاشیم میں ہولوکاسٹ کی جہنم کی نمائش سے گزرا ہوں، گولان کی پہاڑیوں پر کھڑا ہوچکا ہوں اور اسرائیل کی چھوٹی سی فضائی حدود میں ایک اسرائیلی جیٹ پر پرواز کی ہے جو کسی کو بھی اسرائیل کی سلامتی کی اہمیت سمجھانے کے لئے کافی ہے۔ ان تمام تجربات سے اسرائیل کی سلامتی لئے مستقل مزاجی پر مبنی ایسا عزم پیدا ہوا ہے جو سینیٹ میں میرے 28 برسوں کے دوران یا بطور وزیر خارجہ میرے چار برسوں کے دوران کبھی ایک لمحے کے لئے کم نہیں ہوا۔ میں نے مغربی کنارے کی کمیونیٹیز کا بھی اکثر دورہ کیا ہے، جہاں میری ایسے فلسطینیوں سے ملاقات ہوئی جو قبضے کے دوران بنیادی آزادی اور احترام کے لئے جدوجہد کر رہے تھے، وہ فوجی چوکیوں کے درمیان سے گزرتے تھے جس سے انتہائی روزمرہ کے کام جیسے کام پر جانا یا اسکول جانا بھی عذاب ہوجاتا تھا، میں نے کاروباری افراد سے سنا کہ انہیں اپنی مصنوعات کو مارکیٹ تک پہنچانے کے لئے درکار اجازت نامہ بھی نہیں ملتا تھا، ایسے خاندانوں سے بھی ملا جن کو انتہائی ضروری علاج کے سلسلے میں سفر کی اجازت حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا پڑتی تھی۔ میں نے خود تنازع کی ایسی تباہیوں کا مشاہدہ کیا جو طویل عرصے سے جاری ہے۔ میں نے سیروت میں اسرائیلی بچوں کو دیکھا ہے جن کے کھیل کے میدان راکٹوں کا نشانہ بنتے تھے۔ میں نے ایسے اسکول کے قریب پناہ گاہ کا دورہ کیا جہاں پچوں کو سائرن بجنے کے بعد  پندرہ سیکنڈز میں پہنچنا ہوتا تھا۔ میں نے غزہ کی پٹی میں جنگ کی تباہ کاریاں دیکھی ہیںجہاں فلسطینی بچیاں بمباری سے تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے پر کھیلتی ہیں۔ اسرائیلی ہو یا فلسطینی کسی بچے کی زندگی اس طرح نہیں گزرنی چاہیے۔ لہذا جب میں وزیرخارجہ بنا تو واضح مشکلات کو سمجھنے کے باوجود میں یہ بات جانتا تھا کہ مجھے اس تنازع کو ختم  کرانے میں مدد دینے کے لئے وہ سب کچھ کرنا ہے جو میرے اختیار میں ہو۔ میں صدر اوباما کے لیے کام کرنے پر شکرگزار ہوں جو امن کے لئے خطرات مول لینے پر تیار تھے اور اپنی کوششوں کے لئے بہت زیادہ پرعزم تھے۔
تازہ ترین