• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت نامہ، پی پی، پی ٹی آئی میں خالص حزب اختلاف بننے کامقابلہ

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار) پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان پرانی سیاست گری کے انداز میں ہیوی ویٹس کو اپنے ساتھ شامل کرنے کا مقابلہ شروع ہوگیا ہے اس میں خالص حزب اختلاف ہونے اور بننے کی دونوں سیاسی جماعتوں کے درمیان مقابلہ اس بات کے لئے بھی ہورہا ہے کہ حکمران پاکستان مسلم لیگ نون سے مایوس ہونے والے سیاسی وڈیرے کتنی بڑی تعداد میں ان کے کا رواں میں شامل ہوتے ہیں ان کی اکثریت ان مایوس و نامراد بڑوں پر مشتمل ہے جو مسلم لیگ نون کا دروازہ کھٹکھٹاتے تنگ آگئے ہیں اور دروازہ ان کے لئے بدستور بند رہا یا ان سرخیلوں کو اس راہ پر چلتے دیکھا گیا جو پاکستان مسلم لیگ نون کے ہمقدم تھے تاہم اپنی ناقص کارکردگی یا کرتوتوں کے باعث انہیں اس جماعت میں اپنا مستقبل محفوظ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سابق وفاقی و زیر مخدوم فیصل صالح حیات اور خالد کھرل کا پیپلزپارٹی کو دوبارہ پیارا ہوجانا بلاشبہ سیاسی ماسٹر اسٹروک ہے وہ اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں مضبوط امیدوار تصور ہوتے ہیں یہ غور طلب ہوگا کہ پیپلزپارٹی ان کی کشتی کا بھاری پتھر ثابت ہوتی ہے یا وہ اس پارٹی کے لئے اثاثہ بنتے ہیں ان کی شمولیت پر پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کی خاموشی یوں معنی خیز ہے کہ مخدوم فیصل کی موجودگی میں ان کے چراغ روشنی سے محروم ہوسکتے ہیںاب تحریک انصاف پنجاب کے سابق نائٹ واچ مین وزیراعلیٰ کو اپنی صفوں میں جگہ دے رہی ہے جن کی دوسری وجہ شہرت ان کے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خا ن سے مشاغل کی مماثلت ہے ہر چند موصوف کا اپنے خاندان میں الجھائو پایا جاتا ہے لیکن وہ جنوبی پنجاب کے ان پسماندہ علاقوںمیں خان کو پائوں رکھنے کے لئے جگہ فراہم کرسکتے ہیں جہاں ابھی تحریک کا گزر نہیں وہ پاکستان مسلم لیگ نون میں شامل تھے تاہم انہیں کافی عرصے سے دہلیز پر آگے بڑھنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی جنوبی پنجاب میں تحریک انصاف کی مرکزی قیادت یکجا ہے جن میں اے ٹی ایم کی شہرت پانے والے بھی شامل ہیں ایسے میں نئے شامل ہونے والوں کو مرکزی قیادت تک رسائی کے لئے مقامی بڑوں کے چرنوں کو چھو کر گزرنا ہوگا۔ اتوار کو ڈیرہ غازی خان میں تحریک انصاف نے جس مختصر جلسے کے ذریعے عوامی قوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی وہ اس سیاسی جماعت کے لئے مقام عبرت ہے ممکن ہے کہ خان اور ان کے رفقا اس نوشتہ دیوار کو پڑھ لیں کہ وہ تیزی کےساتھ عوام کے لئے اپنی کشش کھورہے ہیں یہی وجہ ہے ڈیرہ غازی خان کے جلسے میں خان اوران کے رفقا بار بار سردی کی شدت اور بارش کا حوا لہ دے رہے تھے تاکہ عو ام کی ان میں روز افزوں عدم دلچسپی پرپردہ ڈالا جاسکے۔ خان یوں تو اپنے جلسوںمیں کوئی نئی بات نہیں کرتے ان کا زور پانامہ کے معاملے پر ہونے لگاہے  جسے وہ عدالت عظمیٰ کے روبرو لیکر گئے تھے اب انہیں اندیشہ ہے کہ وہ اپنا استغاثہ ثابت کرنے میں ناکام رہ رہے ہیں وہ افتراپردازی کے ذریعے اپنے مخالفین کوزک پہنچانے کے درپے ہیں۔ ’’انصاف‘‘ کی خوگر اس 4سیاسی شخصیت کو اس امر کا ادراک نہیں ہوسکا کہ جس معاملے کو عدالت میں زیر بحث اور زیر غور لایا گیا ہو اس پریوں کھلے بندوں تبصرہ نہیں کیا جاتا اور واجب التعظیم عدالت پر دبائو ڈالنے کا ہتھکنڈہ استعمال نہیں کیا جاتا وہ خان ہیں اور اپنی کئے جارہے ہیں تحریک انصاف کے سربراہ اور اس کے لے پالک راولپنڈی کے راجہ بازار کے آتش زیرپا جوتشی نے چار سال تک مسلسل ناکام پیشن گوئیوں کے بعد تنہا حکومت کے خلاف دھرنے کا اعلان کردیا ہے جو مزاحیہ سیاسی اداکار کی شکل اختیار کرچکا ہے  و ہ حکمرانوں کو گالیاں دے کر الزامات عائد کرکے اور سچی جھوٹی کہانیاں سنا کر اپنی محرومیوں کا انتقام لے رہاہےاس کا کہنا ہے کہ عوام نے اس کا ساتھ نہ دیا تو وہ سیاست ترک کردے گا۔ ماضی میں وہ درجنوں مرتبہ ایسے اعلانات کرچکا ہے اور ہر مرتبہ نیا عذر اور نئی کہانی سنا کر پھر شروع ہوجاتا ہے راولپنڈی کے عوام بے چینی سے اس کے ساتھ حساب کتاب کرنے کے لئے موقع کا انتظار کررہے ہیں۔ عوامی رائے عامہ کے جائزوں سے سراغ مل چکاہے کہ جو سیاسی لوگ اپنے مخالفین پر بےبنیاد الزامات عائد کرتے ہیں، دشنام طرازی کے مرتکب ہوتے ہیں بازاری لہجے میں گفتگو کرتے ہیں اور ذاتی کردار کے لحاظ سے قابل رشک قرار نہیں پاتے عوام کی نگاہوںمیں راندہ درگاہ ٹھہرتے ہیں اور ٹھہر رہے ہیں۔ عوام کی بے پناہ دعائوں کی بدولت رحمت خداوندی نے جوش مارا اور پورے ملک میں باران رحمت کی بارشوں سے جہا ں مختلف امراض کی بیخ کنی ہوجاتی ہے جو خشک موسم کے باعث روزمرہ کی شکل اختیار کرلیتی ہیں وہاں اس سے محدود وسائل رکھنے والے لوگوں کے لئے بعض مشکلات کا باعث بھی بنتی ہیں۔ کراچی کے عوام جنہیںاپنی حکومت کی ناقص کارکردگی اور بداعمالیوںکے باعث پہلے ہی بے پناہ مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے اور پورا شہر کوڑا کرکٹ کے انباروں کی وجہ سے کچرے خانے کی شکل اختیار کرچکا ہے حالیہ بارشوںا ور ان سے متوقع طور پر پیدا ہونے والی قباحتوں سے نبردآزما ہونے کے لئے پیشگی ضروری تدابیر اختیار نہ کئے جانے کی وجہ سے ناقابل بیان تکالیف سے دوچار ہورہے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہر کے ہر قریہ اور کونے کو شہری سہولتیں فراہم کرے تاہم تاریخی مقامات بالخصوص ان جگہوں کی نگہداشت ترجیحی بنیادوں پر ہونی چاہئے جو قومی علامت شمار ہوتی ہیں۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظمؒ کی جائے ولادت وزیر مینشن کا بارشی پانی سے گھر جانا انتہائی تکلیف دہ منظر ہے گزشتہ بارشوں کے دوران بھی یہ منظر ابھرا تھا اس مرتبہ اس کا اعادہ ہوا ہےیہ پرلے درجے کی قومی بے حسی اور لائق مذمت تساہل ہے جس پر وفاقی حکومت اور عوام کو سخت نوٹس لینا چاہئے۔
تازہ ترین