• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ ، تبدیلیوں نےعالمی سطح پرکئی بڑے چیلنجز پیدا کردئیے

اسلام آباد(طاہر خلیل) پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک نئے پہلو کا اضافہ ہورہا ہے اور یہ یوں بھی ایک یادگار لمحہ ہے کہ ایک طرف وزیراعظم  نوازشریف ڈیووس عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس میں شریک ہوں گے تو دوسری جانب اسی فورم میں سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابیوںکو اجاگر کریں گے۔ جغرافیائی سیاست کی ہنگامہ خیزتبدیلیوں نے عالمی سطح پرکئی بڑے چیلنجز پیدا کردئیے ہیں ،اس میں غیر ریاستی عناصر نے بھی اپنے مقاصد کی تشکیل نو کی ہے اور وہ اپنی صلاحیت کار کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کررہے ہیں، سوئے اتفاق وزیراعظم جب ڈیووس کے جس عالمی اقتصادی فورم سے خطاب کررہے ہوں گےاس کے آخری دن یعنی 20 جنوری کو یہی ٹرمپ امریکا میں صدارتی منصب سنبھالیں گے،مبصرین کا کہنا ہے کہ وائٹ ہائوس میں کلیدی عہدوں پر سخت گیر افراد کی تعیناتی سے سیاسی کشمکش میں اضافہ ہوگا، جنرل راحیل شریف کوسکیورٹی امور پر ڈیووس فورم کے مذاکروں میں مدعو کرنا ایک اہم پیشرفت ہےاور پاکستان کےلئے باعث اعزاز بھی، کیونکہ پاکستان کے سکیورٹی حالات کی بہتری میں جنرل راحیل شریف نے مثالی خدمات سرانجام دیں اور اب عالمی فورم پر ان کی موجودگی پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کرے گی، سکیورٹی معاملات سے جڑا فرقہ وارانہ اور دہشتگرد تنظیموں میں تفریق سے متعلق وزیر داخلہ چوہدری نثار کا بیان ہے۔مصنویت کے اعتبار سے چوہدری صاحب نےکوئی نیا موقف اختیار نہیں کیا بلکہ شروع سےوہ یہ بات دہرا رہے ہیں کہ فقہی اختلاف سے بننے والی ہر تنظیم کو دہشتگرد قرار دینا قرین انصاف ہوگا۔فقہی اختلافات جب فرقہ وارانہ جھگڑوں سے تشدد میں بد ل جائیں تو یہ پاکستان کی سکیورٹی کےلئے خطرات پیدا کرتے ہیں، اسی لئے کالعدم تنظیموں کی درجہ بندی میں کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کا موازنہ دہشت گرد تنظیموں سے نہیں ہونا چاہیے کچھ تنظیمیں مکمل دہشتگرد ہیں اور کچھ فرقہ وارانہ جھگڑوںمیںملوث ہیں اور یہ وہ جماعتیں ہیں جنہیں ماضی کی حکومتوں نے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی لیکن ہمارے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کےمسئلے کی بنیادہی فرقہ وارانہ دہشتگردی ہے بلکہ کچھ تو اس حد تک کہتے ہیں کہ پاکستان میں دہشتگردی کی روح فرقہ وارانہ ہے۔ اس ضمن میں سائوتھ ایشیا ٹیرارزم پورٹل کی ایک حالیہ رپورٹ قابل توجہ ہے جس میں بتایاگیا کہ وطن عزیز میں اب تک 3049 فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات پیش آئے جس کے نتیجے میں 5358 افراد جاں بحق ہوئے اور اگر گزرے سال 2016 کی بات کی جائے تو گزشتہ برس فرقہ وارانہ تشدد کے 34 واقعات پیش آئے جس کے نتیجے میں 104 افراد جاں بحق ہوئے،ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں حساس معاملات پر تضادات کا شکار ہونے اور مفادات و مصلحتوں کا اسیر بنے کی بجائے قومی مفاد میں بالکل اسی طرح یکجہتی کے ساتھ واضح نصب العین کے ساتھ فیصلہ کرنے اور اس پرعملدرآمد کی ضرورت ہے جس طرح طالبان کو دہشتگرد قرار دے کر ان کےخلاف کامیاب آپریشنز کئے گئے،یقیناًاسی وسیلے سے ملک کاا من بحال ہوا اسی لئے اہل نظر قرار دیتے ہیں کہ اگر استحکام اورسلامتی کا ماحول مقصود ہے تو پھر ہمیں فرقہ وارانہ تشدد میںملوث عناصر سے بھی اسی طرح نمٹنا ہوگا، جنوری 2014 میں نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے کالعدم تنظیموں کے حوالے سے فیصلہ کیاگیا تھا کہ اگر وہ نام بدل کر کام کریںگی تو ان کو بھی کالعدم قرار دیاجائے گا۔
تازہ ترین