• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ضرب عضب اور ضرب قلم گل و خار … سیمسن جاوید

گذشتہ سال اب تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے اور نئے سال 2017میں ہم نے ایک نئے عزم کے ساتھ قدم رکھ دیا ہے۔بہت سے ممالک میں انسانی حقوق کے معاملات کل کی نسبت آج بہتر ہوئے ہیںمگر پاکستان میں سال کاآغاز ہوتے ہی لبرل اور سیکولر سوچ کا پرچار کرنے والے مختلف بلاگرز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے وابستہ وقاص گورایا،عاصم سعید،سلمان حیدر اور احمد رضا نصیر لاپتہ ہوگئے ان کی گمشدگی باعث تشویش بن گئی ہے اب تک ان کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔ اس نئے سال کو ضربِ قلم کا سال قرار دینا وقت کا اہم تقاضہ ہےمگر قلم کی آزادی اور اس کا تحفظ بھی ضروری ہے۔جس کا ایک نمونہ انسانی حقوق کے کارکنوں کی گمشدگیوںکی شکل میں دیا گیا۔ قلم انسانی رویوں اور سوچ کو بدلنے میںکلیدی کردار ادا کرتاہےاگر سوچ اور رویے طاقتور ہوگئے تو معاشرتی رویے بھی بہتر ہوں گے قیام پاکستان کے پیچھے قلم اور دانشوروں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔سرسید احمد خان نے اپنی قوم کی سوچ کو علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے اورعلی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا نے پورے معاشرے کی سوچ بدل ڈالی۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مصمم ہے کہ کسی بھی قوم اور ملک کے لٹریچر یا تعلیمی نصاب سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہےتاریخ کسی بھی قوم کے ماضی ،حال اور مستقبل کی آئینہ دار ہوتی ہےاور ہمارے خطہ کی تاریخ جنگ و جدل و تخت و تاج کے لئے سازشوں ، مذہبی شورشوں،مذہبی فرقہ واریت، آزادی کی جنگوں اور سیاسی کشمکش پر مبنی ہے ۔ایسی صورت حال میں تاریخ اورمزاج کو بدلنے میں وقت بھی لگتا ہے اور قربانیاں بھی دینا پڑتی ہیں۔اس نئے سال میں حکومت کوہرممکن طور پر دہشت گردی اور خطہ میں امن وامان کیلئے اپنے ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کیلئے اپنی خارجہ پالیسی پر سخت کام کرنے کی ضرورت ہے ۔رویوں میں تبدیلی کے لئے ہمیں اپنے گھروں سے کام شروع کرنا ہوگا اورکمیونٹیز کو بھی اپنے طور پر مضبوط ہونے کے لئے وقت کے ساتھ حکمت عملی بدلنا ہوگی ۔عقل مند وہی قومیں ہیں جو وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وقت کے ساتھ چلتی ہیں اس نئے سال میں بحیثیت مسیحی کمیونٹی ہماری اولین ترجیحات نوجوان ہونے چاہئے جو قوم کے مقدر کا ستارہ ہیں ۔ ہمیں ان ستاروں کو مایوسیوں ، بری علتوں اور جہالت کے گھپ اندھیروں سے باہر نکالنا ہوگاتاکہ ان کا مستقبل تابناک ہو، حقیقی اور جرأت مند لیڈر شپ سامنے آئے اور نوجوان لیڈر شپ ایسے تمام نام نہادمذہبی و سیاسی رہنماؤں سے قوم کا پیچھا چھڑائیں جو یہودہ اسخریوطی کے روپ میں قوم کی ملکیت اور مستقبل کا سودا کر رہے ہیں جوقوم کے لئے باعث ندامت ہیںاور جوک کی طرح قوم کا خون چوس رہے ہیں۔ اپنی تجوریاں تو بھر رہے ہیں مگر قوم کو اندر ہی اندر کمزور کر رہے ہیں۔اس کیلئے چرچ کوجو ایک منظم اور مدبر ادارہ ہے،ایک نئے مشن کے ساتھ سامنے آنا ہوگاتاکہ استحصالی قوتوں اورنوجوانوں کے روشن مستقبل کیلئے معاون کردار ادا کر سکے۔ اس سال سیاسی استحکام اور بنیادی حقوق کے حصول کے لئے یکجہتی اور یکسوئی سے کام کرنے کی سخت ضرورت ہے یہ خوش آئندبات ہے کہ لاہور میں ہونے والی امپلی مینٹیشن مینارٹی رائٹس فورم اور آرچ ڈائیوسیس آف لاہور اور عزت مآب آرچ بشپ سبسٹین فرانسس کے زیر اہتمام منعقدہ کانفرنس میں مسیحی سیاسی لیڈرشپ نے شرکت کی اورحکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق چاروں صوبوں میں مینارٹی رائٹس کمیشن کی تشکیل مکمل کرے اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے سابقہ چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کے2014کے فیصلے پر من وعن عمل کو یقینی بنایا جائے اور متناسب نمائندگی کی بنیادوں پر اقلیتوں کے طریقہ انتخاب کو ختم کرکے قومی اور بلدیاتی سطح پر اقلیتوں کو اپنے نمائندے خودمنتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ آئین میں مروجہ قوانین اور پالیسیوں سے تمام امتیازات کا خاتمہ کرکے مساوی شہریت کی بنیادوں کو مضبوط کیا جائے اس میں ہمارے حکومتی سیاسی نمائندگان کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئےاور انہیںاپنی سیاسی کار کردگی بہتر کرنی چاہئے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں مسیحی عوام انہیں ان کے کام کی وجہ سے ووٹ دے کر اسمبلیوں میں دوبارہ بھیجیں تاکہ ان کے تجربات سے قوم کو فائدہ حاصل ہو اور ساتھ ساتھ نئی لیڈر شپ کو بھی مواقع مل سکیں۔ پاکستان میںجب بھی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو چاہے بات لینڈ مافیا کی ہو یا اقلیتوں کے حقوق کی ،لوگوں کی زبانوں پریہ سوال آتا ہے کہ ہماری سیاسی لیڈر شپ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہےکیونکہ اکثریت کے خیال میں یہ قوم کے نمائندے نہیں بلکہ یہ تو حکومتی نمائندے ہیں۔اس حقیقت کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ حکومت کبھی بھی یہ نہیں چاہے گی کہ وہ ایسے افراد کوسلیکٹ کرے جو ان کی پالیسوں یا سسٹم سے ہٹ کر بات کر یں ۔ شہید شہباز بھٹی کی مثال سب کے سامنے ہے ایسے حالات میں جرأت کہاں سے آئے گی۔لیکن سب کو ایک ہی نظرسے دیکھنا اورذکر نہ کرنابھی زیادتی ہوگاکیونکہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصر کاتعلق اگرچہ ایک مذہبی جماعت سے ہے مگرمسیحی کمیونٹی کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کے خلاف اسمبلی میں کھل کرکڑک دارآواز میں بولتی ہیں۔بقول ان کے، تمام اقلیتی نمائندگان میں نااتفاقی کے باعث اقلیتی نمائندے زیادہ فعال نہیں۔دوسرے کامران مائیکل ہیں جوبہت متحرک ہیں جہاں بھی کمیونٹی سے کوئی زیادتی ہوتی ہے یا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے فوراً وہاںپہنچتے ہیں اورضروری اقدام بھی کر تے ہیں۔وہ بین المذاہب میں نفرتیں کم کرنے کے لئے ضروری اقدامات کیلئے بھی کوشاں ہیں۔مگر اس کے ساتھ ساتھ ٹھوس بنیادوں پراقدامات کرنے اورہمارے نمائندگان کو اپنی قوم کے حقوق کی بات اسمبلی فلور پر کرنے کی ضرورت ہےاور اسمبلی میں اقلیتوں کے تحفظ اور اقلیتوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق بل لے کرآئیں نشستیں بڑھ بھی جائیں اگر انہوں نے اپنے حقوق کے لئے اسمبلی میں آواز نہ اٹھائی تو کیا فائدہ؟




.
تازہ ترین