• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اخبارات کے برعکس سوشل میڈیا پر جاری مواد پر کوئی قدغن نہیں

لاہور (صابر شاہ) امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد کہ سی این این پر ان کے روس کے ساتھ تعلقات کی جھوٹی خبر چلائی گئی۔ برطانوی وزیر برائے ڈیجیٹل اور ثقافتی پالیسی میٹ ہینکاک نے مقامی اخبارات کے مدیران کو خبروں کی اشاعت سے قبل ان کی صداقت جا ننے کے طریقہ کار کو طے کرنے کی دعوت دی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ برطانوی اخبارات اس حکومتی تجویز کی مخالفت کر رہے ہیں جس کے مطابق عدالت کارروائی کی صورت میں اخراجات اخبارات کو ادا کرنا ہوں گے۔ فی الوقت برطانیہ میں صورتحال یہ ہے کہ مقدمہ ہارنے کی صورت میں صرف وہ اخبارات عدالتی اخرا جات ادا کرنے کے پابند ہیں جنہوں نے حکومتی شرائط نامے پر دستخط نہیں کئے ہوتے۔ حال ہی میں فیس بک نے اعلان شائع کیا ہے کہ وہ 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات کے بعد سے جھوٹی خبروں کی اشاعت روکنے سے قاصر ہے۔ فیس بک کے نقادوں کا دعویٰ ہے کہ فیس بک اگر ان جھوٹی خبروں کو نہ پھیلاتی جو ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں جاتی تھیں تو وہ انتخابی معرکہ کبھی جیت نہ پاتے۔ گزشتہ ہفتہ نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سی این این کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ ان کے خلاف یہ جھوٹی خبر نشر کی گئی کہ ان کے روس کے سا تھ خفیہ تعلقات ہیں۔ تحقیق کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں اخبارات  رسائل تو  غیر متنازع ہیں اور بلاتعطل ان کی اشاعت جاری ہیں تاہم یہ سوشل میڈیا ہے جہاں کسی بھی مواد پر کوئی قدغن نہیں۔ تمام سوشل ویب سائٹس کی سنسرشپ کے حوالے سے شرائط تو ہیں مگر عملی طور پر جب اس پر نشر ہونے والے مواد کی بات آتی ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں۔ اس کا اطلاق ہر صارف پرہوتا ہے چاہے وہ عام آدمی ہے یا کوئی معروف شخصیت، فیس بک نے کبھی یہ اعلا ن نہیں کیا کہ وہ ہر طرح کی بات کرنے کا پلیٹ فارم ہے بلکہ یہاں محتاط آزادی رائے کے اظہار کا موقع دیا جا تا ہے جسے صارفین آپش میں شیئر کرتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کریں۔ فیس بک میں شائع ہونے والے مواد کی پالیسی کا تعین کرنے والی بکرٹ کا کہنا ہے کہ جب فیس بک پر کوئی صارف ایسی بات کہتا ہے جو غیر مناسب اور جارحانہ ہوتی ہے تو فیس بک اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے اس وال سے ہٹا دیتی ہے۔ 28 جولائی 2010ء کو بی بی سی نے ا یک رپورٹ شائع کی تھی کہ برطانوی سکیورٹی کنسلٹنٹ ران بائوز نے ایک کوڈ کا استعمال کرکے فیس بک سے  10کروڑ ذاتی کوائف سکین کر لئے تھے۔ یہ ڈیٹا صارفین کی نجی وال سے چھپایا نہیں گیا تھا۔ سکیورٹی کنسلٹنٹ نے بعد میں مذکورہ ڈیٹا آن لائن جاری کر دیا تاکہ فیس بک کی نجی پالیسی کو آشکا ر کیا جا سکے تاہم اس پر فیس بک کا موقف تھا کہ یہ کوائف پہلے بھی عوامی اثاثہ ہوتے ہیں۔
تازہ ترین