• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دہشت گردی:پاکستان اور افغانستان مشترکہ حکمت عملی بنائیں

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اتوار کو افغان صدر اشرف غنی کو ٹیلی فون کر کے افغانستان میں دہشت گردی کے پے درپے واقعات سے ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس سنگین مسئلے کے حل کے لئے الزام تراشی کی بجائے دونوں ملکوں کے درمیان بارڈر مینجمنٹ بہتر بنانے کی تجویز کا اعادہ کیا ہے دہشت گردوں کے حملوں سے حالیہ دنوں میں دارالحکومت کابل سمیت افغانستان کے کئی مقامات پر سو سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے افغان حکومت ان حملوں کے لئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرا رہی ہے اور بھارت جارحانہ انداز اور امریکہ سفارتی زبان میں اس کی تائید کر رہا ہے اس سے شہ پا کر بعض عناصر نے کابل میں پاکستانی سفارتخانے پر حملے کی کوشش کی اور ہرات میں مخالفانہ مظاہرہ کیا گیا جنرل باجوہ نے افغان صدر سے اپنی ٹیلی فونک گفتگو میں پاکستان پر لگائے جانے والے بے سروپا الزامات کی سختی سے تردید کی آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کا کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں آپریشن ضرب عضب کے دوران ایسے تمام ٹھکانے تباہ کئے جا چکے ہیں انہوں نے اس حقیقت کی طرف بھی توجہ دلائی کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام کئی سال سے دہشت گردی کا شکار ہیں انہیں ضرب عضب کی کامیابیوں کو مل کر مضبوط بنانا چاہئے افغان صدر نے پاک فوج کے سربراہ کے ٹیلی فون کا شکریہ ادا کیا اور خطے میں امن و استحکام کے لئے دونوں ملکوں کے مل کر کام کرنے کی تائید کی تاریخی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورت حال خطے پر بالادستی کے لئے امریکہ اور روس کی رسہ کشی کے مابعد اثرات کا نتیجہ ہیں ان بڑی طاقتوں نے افغانستان میں ’پراکسی وار‘ لڑی جس سے دہشت گردی نے جنم لیا جو سرحد پار کر کے پاکستان میں داخل ہو گئی اور یہاں کا امن و سکون درہم برہم کر ڈالا پاکستان نے دہشت گردی سے 60 ہزار انسانی جانوں اور اربوں ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پاک فوج نے اپنے علاقوں میں آپریشن کر کے اس ناسور کو بڑی حد تک جڑ سے اکھاڑ پھینکا افغانستان کو اس مہم میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دینا چاہئے تھا اس کی بجائے اس نے پاکستان سے فرار ہونے والے شدت پسندوں کو اپنے ہاں پناہ دی اور پہلے سے موجود پاکستانی دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کے ساتھ انہیں بھی تحفظ فراہم کیا یہ لوگ اب بھی پاکستان کے لئے خطرات پیدا کئے ہوئے ہیں افغان طالبان کابل حکومت کا اپنا درد سر ہیں جن کے ساتھ مفاہمت کی کوششیں جاری ہیں گلبدین حکمت یار گروپ نے مصالحت کر لی ہے جبکہ دوسرے گروپ ابھی تک خونی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں افغانستان میں ہونے والے واقعات پاکستان پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ دہشت گرد دونوں ملکوں کے خلاف لڑ رہے ہیں آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والے افغانستان ہی سے آئے تھے امریکہ نے حقانی نیٹ ورک کا ہوّا کھڑا کر کے افغانستان کو پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا موقع دیا پاکستان بار بار یقین دلا چکا ہے کہ وہ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف یکساں کارروائی کر رہا ہے حقانی نیٹ ورک بھی ان میں شامل ہے تا ہم مخالف قوتوں کے پراپیگنڈہ کی وجہ سے باقی دنیا بھی اس معاملے میں شکوک و شبہات ظاہر کر رہی ہے یہ صور ت حال پاکستان کے لئے لمحہ فکریہ ہے ہمیں خود فریبی میں مبتلا ہونے کی بجائے خود احتسابی پر توجہ دینی چاہئے جنرل باجوہ نے نہایت پرخلوص انداز میں اس طرح کے الزامات کی سختی سے نفی کی ہے لیکن اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے پاکستان کو کھلے دل سے یہ دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں کہ ایسے الزامات کیوں لگائے جا رہے ہیں تا کہ کہیں کوئی خامی نظر آئے تو اسے دور کر لیا جائے کابل حکومت بھی حقیقت پسندی سے کام لے اور غیروں کے اکسانے پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی سے گریز کرے دونوں ملکوں کو دہشت گردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانی چاہئے اس سلسلے میں انٹیلی جنس شیئرنگ اور اعتماد سازی کے اقدامات اولین ضرورت ہیں۔

.
تازہ ترین