• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
آج کا ’’آئین نو‘‘ گزشتہ اتوار 15جنوری کو شائع ہونے والے ’’آئین نو‘‘ بعنوان ’’اپوزیشن اور میڈیا پر وزیراعظم کی تنقید‘‘ ہی کا تسلسل ہے۔
اقتدار جتنا طاقتور اور کتنے ہی اعتبار سے پرکشش ہوتا ہے۔ اتنا ہی بڑا امتحان اور آزمائش بھی ہے اقتدار میں رہ کر اسے سمجھنا اوراس کے مطابق راہ راست پر چلنا بلاشبہ شاید انسان کی انسانیت کا سب سے بڑا ہی نہیں کڑا امتحان بھی ہے۔ جناب وزیراعظم! اب تو سائنسی عمل کے نتائج کی طرح یہ ثابت کیس ہے کہ اعلانیہ اورآئینی جمہوری ریاستوں میں عوام بہترین اور بدتر حالت میں ہوتی ہے، اس کی یقیناً دس اور وجوہات بھی ہوتی ہیں لیکن سب سے بڑی گورننس کی کوالٹی ہی ہوتی ہے، خصوصاً اسٹیٹس کو اپنی منفی طاقت سے قائم دائم ہو اور عوامی بہتری کی تبدیلی میں رکاوٹ بنا رہے تو پھر تو بدتر گورننس ہی اس شیطانی طاقت کا سبب ہوتی ہے۔ جمہوری ریاست میں حکمرانی جتنی فلسفہ جمہوریت کی پیروی میں ہوگی اتنی ہی بہتر ہوگی اور جتنی اقتدار کے نشے میں آئین و قانون سے دور ہوگی اتنی ہی عوامی مفادات کی دشمن، لیکن پاکستان جیسے مزاجاً جمہوری معاشرے میں حکمرانوں کی عیاری ومکاری بھی ڈھکی چھپی نہیں رہتی اورمیڈیا ان کے لئے مسلسل صدمے کا سبب بنا رہتا ہے، جیسے درباری بیڈگورننس کے ذمہ دار حکمرانوں کو تسلی و تشفی دینے اور شاد رکھنے کا کوئی لمحہ خالی جانے نہیں دیتے، اسی طرح ووکل بیباک میڈیا بیڈگورننس کے ہر پہلو پر تنقید کے تیر چلانے سے باز نہیں آتا۔ حکمران ان کا اثر قبول نہ کریں اورمقابل طاقتور میڈیا سیل بنا لیں تو پھر بیڈگورننس میں ہی دھنستے جاتے ہیں۔
اعلانیہ و آئینی جمہوریتوں میں بیڈگورننس کے اس عمومی پس منظر میں وزیراعظم نوازشریف کا اپوزیشن اور میڈیا سے شکوہ اور ان پر تنقید کوئی نئی نہیں، سیاسی مخالفین اور تنقید کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے سے تعبیر کرنا روایتی حکومتی الزام ہے۔ لیکن حکومتیں اپنے پر مسلسل تنقید اوراٹھائے گئے سوالات کے جواب دینے سے گریز کرتی ہیں۔ تنقید و سوالات پر جتنی خاموشی منجانب حکومت ہوگی، وہ سب کی سب اپوزیشن اور میڈیا کے الزامات کی تصدیق ہی ہوتی ہے۔ جیسے موجودہ تیسری ن لیگی حکومت اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی کہ کیا انتظامی علوم (ایڈمنسٹریٹو سائنس) کے اصولوں کے مطابق اس نے کسی ایک شعبے کی بھی پالیسی سازی کی ہے؟ اس نے محکموں میں پبلک ڈیلنگ کو شفاف بنانے، عوام کے لئے آسانیاں پیدا کرنے، بجٹ اور اس کے ترقیاتی منصوبوں میں تبدیلی، آمدنی اور اخراجات کو عوام کے سامنے لانے، شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، عدالتی ریکارڈ حاصل اور درج کرنے بغیر رشوت ، ذلت و خواری اور سفارش کے بغیر کرانے کے لئے ای گورننس متعارف کرانے کے لئے کوئی بنیادی اقدامات اٹھائے؟ اٹھارویں ترمیم میں حصول تعلیم کو بنیادی حق قرار تو دیا گیا لیکن اس کے لازمی حصول کے لئے اسکول سے باہر کروڑوں بچوں کو لازماً اسکولوں میں لے جانے کے لئے کوئی پالیسی بنی ؟ کوئی قانون بنا؟ بنا تو اس پر عملدرآمد کی کیا کیفیت یا حکومتی اشتہاری مہمات اور لیپ ٹاپ کی مفت تقسیم سے عوام ای گورننس متعارف ہونے اور تھانہ کچہری کلچر ختم ہونے کا اطمینان حاصل کرلیں؟ یہ جو ٹی وی پر شام ڈھلے حکومتی کرپشن سنگین بے قاعدگیوں، کنبہ پروری اور خلاف میرٹ حکومتی اقدامات کو بے نقاب کرنے کے لئے اینکر پرسن اپنی اپنی منڈلی لگاتے ہیں، جو رات گئے جاری رہتی ہیں، ان پر ’’جھوٹ‘‘ اور ’’غلط‘‘ کا جواب کیوں نہیں دیا جاتا۔ ادھر ادھر کی کیوں ہانکی جاتی ہیں، یہ میڈیا منڈلیاں کوئی حکومتی دفاع کے ترجمان اور وکیلوں سے تو خالی نہیں ہوتیں۔ اگر میڈیا خلاف حکومت اتنا دروغ گوئی پر اتر آیا ہے تو میڈیا کو ماوراء آزادی حکومت و ریاست کو زک پہنچانے سے روکنے کے لئے میڈیا لاز کس مرض کی دوا ہیں؟ یہ کیوں بنائے گئے ہیں؟ یا میڈیا سے بھی مفاہمت مفاہمت کا کھیل جاری ہے؟
جناب وزیراعظم! ترقیاتی عمل وہی ہوگا جو عوام کی ترجیحات، ان کی ضروریات اور ان کی شرکت سے چلے گا۔ جس کی نشاندہی وہ خود کریں گے، خود اس میں شریک ہوں گے تو ڈویلپمنٹ سائنس کے مطابق یہ Sustainable بھی ہوگا اور نتیجہ خیز بھی۔ روٹی پلانٹ، مفت لیپ ٹاپ، جنگلہ بس، اونج ٹرین اور بھاری بھر کم اخراجات سے کم تر نتائج دینے والے انرجی کے منصوبے عوامی شرکت سے خالی ہیں۔ یہ کسی باقاعدہ پالیسی اور قواعد و ضوابط کے بغیر تیار کر کے اعلان ہوتے ہی متنازع بنتےہوئے نافذ کئے گئے۔ ان کا بجٹ اور نتائج میچ کرتے ہیں اور یہ عوام کی ترجیحات سے بہت دور ہیں۔ آپکی تیسری حکومت نے انتخابی نظام کو شفاف اور بااعتبار بنانے کے لئے اقتدار کا چوتھا سال آنے پر بھی اب تک کوئی بنیادی قدم نہیں اٹھایا، مردم شماری عدالتی حکم پر ہو جائے تو ہو جائے، بیمار اور عوام دشمن ٹیکس نظام وہیں کا وہیں۔ آپ بلاشبہ سب پاکستانیوں کے وزیراعظم ہیں لیکن لودھراں کے ان کسانوں کے کیوں نہیں جن سے آپ نے ضمنی انتخابی مہم میں وعدہ کئے جو پورے نہیں ہو رہے۔عوامی خدمات کے جن اداروں میں غول کے غول بے ضرورت ملازم یا کارکن رشوت اور ناجائز رکھ کر برباد کئے گئے، ان کی اصلاح کی کوئی صورت نہیں نکل سکی۔ رہا سی پیک یہ کوئی مخصوص حکومتی منصوبہ ہے ہی نہیں۔ یہ مخصوص علاقائی صورتحال اور اس میں سے نکلتی پاکستان کےلئے رحمت اور برکت ہے، جسے کوئی حکومت ختم کرسکے گی نہ ہی کسی ایک حکومت نے ختم کیا، یہ چین کی پاکستا ن میں بھاری بھر سرمایہ کاری کی اپنی شدید ضرورتوں اور مستقبل کے منصوبوں اور وژن کا پیداوار ہے۔ اس میں دھرنے نے جو دیر لگائی آپ کی حکومت نے بھی اس میں چھپ چھپائی صوبائی حکومتوں سے کی، وہ بھی تاخیر کا سبب بنی؟
خدارا! اپوزیشن اور میڈیا کی تنقید کی ’’ترقی‘‘ کی راہ میں رکاوٹ نہ سمجھیں، آپ حقیقی ترقیاتی عمل شروع تو کریں دیکھیں، قوم کیسے اس میں شریک ہوتی ہے اور کیا اس کے نتائج نکلتے ہیں۔ اس کے لئے بلدیاتی نظام کو بمطابق آئین بنائیں اس کے لئے لازم ہے کہ گورننس کو علوم کے عملی اطلاق سے جوڑیں، آئین کو مکمل اختیار کریں اور ملک میں تمام طبقات پر قانون کا یکساں اطلاق کریں ، آپ کی حکومت پر ساری تنقید ان ہی کی عدم موجودگی میں جاری ہے، جو کوئی رکاوٹ نہیں۔ رکاوٹیں ختم کرنے کے لئے ہے۔ وما علینا الاالبلاغ۔

.
تازہ ترین